مرثیہ کیا ہوتا ہے ؟
مرثیہ
مرثیہ عربی لفظ "رثا "سے بناہے ۔جس کے معنی ہیں مرنیوالے کی تعریف وتوصیف ۔گویا مرثیہ ایسی صنف شعر ہے جس میں کسی مرنے والے کا ذکر اور اس کی تعریف حسرت اور غم کے انداز میں کی جاتی ہے۔
ظاہری ہییت کے اعتبار سے ابتدا میں مرثیے کی کوئی خاص شکل متعین نہ تھی ۔شعرا کبھی غزل کی طرح متفرق اشعار میں اظہار غم کرتے تھے اور کبھی مثلث،مربع ،مخمس، مسدس ،ترکیب بند میں۔یعنی ہر شکل میں مرثیے لکھے گئے ،مگر بعد میں مسدس رائج ہوگئی اور دوسری تمام ہیتیں متروک ہوگئیں ۔مسدس ہییت کے مرثیے بند کے پہلے چار مصرعوں میں کسی بات کی تفصیل بیان کرتے ہیں آخری دو مصرعوں میں اس تفصیل کی بنا پر کوئی نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں۔عموما آخری دو مصرعوں میں ایسی دلچسپ یا عجیب بات بیان کی جاتی ہے کہ قاری خود بخود اگلے بند کی طرح رجوع کرتا ہے ۔اردو کے تمام مرثیہ نگاروں نے مسدس ہییت میں مرثیے لکھے ہیں ۔
مرثیہ کسی طرح کا ہوتا ہے۔مثلا وہ مرثیہ جو کسی شخص قومی رہنما وغیرہ کی وفات پر اظہار غم کے طور پر لکھا جاتا ہے جیسے ہر سال یوم علامہ اقبال یا یوم خوشحال کے موقع پر دونوں رہنماؤں کے متعلق نظمیں کہی جاتی ہیں ۔ایسے مرثیوں کی حثیت عموماً رسمی ہوتی ہے۔بعض اوقات مرثیہ کسی ایسی عزیز کے متعلق ہوتا ہے جس سے انسان ذاتی یا خاندانی نسبت ہو مثلاً اقبال کا مرثیہ ،والدہ مرحومہ کی یاد ہیں۔اس کے لیے ضروری ہےکہ دل کی گہرائیوں سے نکلے ورنہ اس کی حیثیت رسمی مرثیے کی ہوگی ۔مرثیے کی ایک شکل وہ ہے جس میں دینی رہنماؤں خصوصاً حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان اعزہ واقربا شہداے کربلا کا ذکر ہوتا ہے ۔انیس اور دبیر کے مرثیے اسی کی نوعیت ہیں۔نمونے کے طور پر میر انیس کا مرثیہ پیش کرتے ہے
ناگاہ تیرا ادھر سے چلے جانب امام
گھوڑا بڑھا کے آپ نے حجت بھی کی تمام
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقان تشنہ کام
بے سر ہوئے پروں میں سران سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
Comments
Post a Comment