حمد
حمد
حمد کے معنی اللہ تعالیٰ کی تعریف کے ہیں۔اصطلاح میں حمد وہ نظم ہوتی ہے،جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور عظمت وقدرت کا بیان ہوتا ہے اور اس کی ہمہ پہلو تعریف کی جاتی ہے ،حمد کا موضوع اتنا ہی وسیع اور متنوع ہے جس قدر خدا اور اس کی کائنات ۔گویا اس کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔
حمد کے لیے ایک بحر ،وزن یا ہیت متعین نہیں ۔حمد مختلف ہییتوں میں لکھی گئی ہے،بعض جدید شعرا نے آزاد نظم کی ہیت میں بھی حمدیں لکھی ہیں ۔ذات باری تعالیٰ کے لیے محبت وعشق کا جذبہ حمد کا محرک ہوتا ہے لہذا ضروری ہے کہ 1 حمدرسمی نہ ہو بلکہ شاعر ،ذات باری تعالیٰ کے عشق میں ڈوب کر لکھے ۔
2 شاعر کا لہجہ انتہائی مودب اور منکسرا نہ ہو،اظہار کا طریقہ ایسا نہ ہو جس سے شان الہی میں گستاخی کا پہلو نکلتا ہو ۔
3 حمد کی زبان پاکیزہ اور الفاظ شستہ اور بلیغ ہوں ۔
4 شاعر خدا کی عظمت اور رحمت بیان کرنے کے بعد اس سے مغفرت اور امت کی بھلائی کی درخواست کرے ۔
حمد اردو شاعری کی قدیم ترین صنف ہے، اتنی ہی پرانی جتنی خود اردو شاعری۔قدیم شعرا کے ہاں ہر دیوان ،مثنوی ،اور مجموعہ کلام کا آغاز حمد سے ہوتا تھا۔یہ روایت اس قدر پختہ اور گہری تھی کہ ہندو شعرا اور مثنوی نگاروں نے بھی اس سے انحراف نہیں کیا ،ہر دیوان کی پہلی غزل حمد ہوتی تھی اور ہر مثنوی میں آغاز قصہ سے پہلے مثنوی نگار حمد کہتا تھا۔شعرا نے بطور خاص الگ حمدیں بھی کہی ہیں ۔ترقی پسند تحریک نے ادب میں مذہبی اور روحانی روایات کے خاتمے کی کوشش کی اس سے دور جدید کے بعض شعرا حمد کہنے کی سعادت سے محروم رہے ۔دور جدید کے ایک شاعر باقی صدیقی مرحوم کی ایک حمد ملا حظہ ہو :
تو قادر مطلق ہے یہی وصف ہے کم کیا
آگے کرے اک بندہ ناچیز رقم کیا
تو خالق کونین ہے تو حاصل کونین
ہے جس پہ نظر تیری اسے کوئی ہو غم کیا
تو اپنے گہنگار کو توفیق عمل دے
ہوتا ہے زباں سے سر تسلیم بھی خم کیا
یہ رنگ غم زیست ،یہ انداز غم جاں
دنیا کی تمنا میں نکل جائے گا غم کیا
اک سجدہ کیا میں نے فقط شعر کی صورت
ورنہ مری تخیل ہے کیا،میرا قلم کیا
Comments
Post a Comment