پیروڈی
پیروڈی
پیروڈی کا لفظ " پیروڈیا" سے بنا ہے جس کے لغوی معنی ہیں " جوابی نغمہ " ۔۔۔۔۔اصطلاح میں وہ صنف ظرافت ہے جو کسی کے طرز نگارش کی طرز اور نقل میں لکھی گئی ہو مگر اصل نگارش کے الفاظ و خیالات کو اس طرح بدل دیا جائے کہ مزاحیہ تاثرات پیدا ہو جائیں ۔پیروڈی میں کسی کی نگارش کی تقلید کرکے اس کے اسٹائل یا خیالات کا مذاق اڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پیروڈی نظم کے ساتھ مخصوص نہیں ۔اردو میں نثری پیروڈیاں بھی ملتی ہیں مگر کم۔۔۔۔پیروڈی کا اردو ترجمہ " تحریف " کیا گیا ہے،اسے مضحکہ خیز یا لفظی نقالی بھی کہ سکتے ہیں ۔
اردو پیروڈی ایک جدید صنف ہے۔اس کا آغاز اگرچہ انگریزی ادب کی ہندوستان میں ترویج سے وابستہ ہے،مگر قدیم اردو شاعری میں پیروڈی کی خود شکل کا سراغ ملتا ہے ۔انشا اور مصحفی نے آپس کی محاصرہ چشمکوں میں جو اشعار کہے ان میں پیروڈی کا عکس نظر آتا ہے ۔ابتدائی دور میں تربھون ناتھ، ہجر ،سرشار، اکرابادی ،اور دور جدید میں کنھیالال کپور،داہی ،پروفیسر عاشق محمد سید جعفری نزیر احمد وغیرہ کامیاب پیروڈیاں کہی ہیں ۔
چند مثالیں ۔ملاحظہ ہوں
اصل شعر
کسی نے گر کہا مرتا ہے مومن
کہا ہم کیا کریں مرضی خدا کی
پیروڈی
کسی نے گر کہا مرتا ہے اکبر
کہا ہم کیا کریں مرضی ہماری
اکبر ابادی
اصل شعر
کریما بہ بخشائے برحال ما
کہ ہستم اسیر کمند ہوا
سعدی
پیروڈی
کریما بہ بخشائے برحال بندہ
کہ ہستم اسیر کمیٹی و چندہ
اکبر ابادی
Comments
Post a Comment