قطعہ کیا ہوتا ہے
قطعہ ( ق،ط،ع،ہ)کے لغوی معنی " ٹکرا"یا " جزو" کے ہیں ۔اصطلاح میں اس نظم کو کہتے ہیں ،جس میں کوئی خیال یا واقعہ مسلسل بیان کیاگیا ہو۔قطعے میں مطلع کی موجودگی ضروری نہیں ۔قطعے میں ہر شعر کے دوسرے مصرع میں قافیہ کی پابندی لازمی ہے گویا قطعے کی ہییت قصیدے کی ہوتی ہے۔مگر قطعے میں مطلع نہیں ہوتا ۔قطعہ ہر بحر میں کہا جاسکتا ہے ۔قطعہ کم از کم دو شعروں کا ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ کی کوئی قید نہیں ۔
قطعہ کے لیے کوئی موضوع مقرر نہیں ۔قطعہ نگار ہر طرح کے واقعات وبیانات ،نظریات وخیالات اور احساسات وجذبات کو نظم کرسکتا ہے ،بشرطیکہ پورا قطعہ معنوی اعتبار سے مکمل اکائی ہو ۔
اکثر نامور شعرا مثلاً سودا،میر،سوز،میر حسن , مصحفی ،انشا،رنگین ،اور جرات نے قطعات کہے ہیں ۔نظیر کو مسلسل گوئی سے خاص لگاؤ تھا اس لیے انھوں نے بھی اچھے قطعات لکھے حالی نے پہلی بار قطعہ پر خاطر خواہ توجہ دی ۔اس کے بعد شبلی ،ازاد ،اکبر اسماعیل میرٹھی ،اقبال ،احمد ندیم قاسمی ،انور مسعود اور بہت سے دوسرے شعرا نے سیاسی ،طنزیہ ،اور مزاحیہ ،کہے ہیں
چند قطعات نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں
انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
یاوسعت افلاک میں تکبیر مسلسل
یا خاک کی آغوش میں تسبیح ومناجات
وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہب ملا وجمادات و نباتات
علامہ اقبال ص
مندرجہ ذیل قطعہ صرف دو شعروں پر مشتمل ہے ۔
کنج زنداں میں پڑا سوچتا ہوں
کتنا دلچسپ نظارہ ہوگا
یہ سلاخوں میں چمکتا ہوا چاند
ترے آنگن بھی نکلا ہو گا
احمد ندیم قاسمی
Comments
Post a Comment