پابند نظم
پابند نظم
پابند نظم کے لیے بحر ،وزن اور قافیہ و ردیف ( یا صرف قافیہ)کی پابندی ضروری ہے ۔موضوع کی کوئی قید نہیں ۔پابند نظم کسی بھی موضوع پر کسی بھی ہییت ( یعنی مثنوی،قصیدہ ،مسدس،مربع یا ترکیب بند وغیرہ )میں لکھی جاسکتی ہے ۔عموما کسی ایک خیال یا تصور کو موضوع نظم بنایا جاتاہے،یعنی نظم کے لیے صرف تسلسل خیال ضروری ہے ۔بیشتر قصائد ،مرثیے ،اور قطعات کو پابند نظمیں بھی کہا جاسکتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ مزاجاً وہ نظم جدید میں شمار نہیں ہوتیں ۔
نظیر اکبر ابادی ،شبلی اسماعیل ،اکبر ،بے نظیر شاہ،اقبال اور جوش نے دنیا کی بے ثباتی ،وطن کی محبت ،سیاست ،اور قدرتی مناظر کو موضوع نظم بنایا ۔جوش کے ہاں خارجی رجحانات نمایاں ہیں ۔جدید شعرا کے ایک گروہ ( جاں نثار اختر،علی سردار جعفری ،ساحر اور مجاز وغیرہ )نے مجلسی یا معاشی غیر ناہمواریوں کو موضوع نظم بنایا ہے مگر ان کی اکثر نظمیں سیاسی پروپیگنڈے کی ذیل میں آتی ہیں ۔جعفر طاہر ،نعیم صدیقی ،عبد العزیز خالد ،سہیل احمد زیدی ،وغیرہ نے تہذیبی ،فکری اور سیاسی مسائل پر نظمیں لکھی ہیں ایک ملاحظہ ہیں
بیگانہ احساس ہے کیا جبر مشیت
کسی درجہ ستم کیش ہے تقدیر کا قانون
انددہ مکافات میں دنیا ہے گرفتار
حدیہ ہے کہ حیوان بھی اس سے نہیں مامون
حل کر نہ سکے مسلہ سودوزیاں کو
گو تم ہو عرفان کہ اسرار فلاطون
ہے وہم وگمان عقل فسوگر کا کرشمہ
تیری نگہ گرم سے ٹوٹے گا یہ فسوں
فروغ احمد " قیامت ' کا ایک بند
Comments
Post a Comment