سوانح عمری

 سوانح عمری 

سوانح عمری ،دراصل مقالہ ہی کی ایک شکل ہے۔یہ کوئی مستقل اور الگ صنف نثر نہیں ،باعتبارموضوع مقالہ کی ایک قسم ہے ۔

 سا

 سوانح عمری وہ صنف ادب ہے جس میں کسی فرد کی پیدائش سے لے کر وفات تک کے تمام واقعات ،اس کی ذہنی وعقلی نشوونما کے مختلف مراحل اور اس کے شخصی کارناموں وغیرہ کو بہ تفصیل بیان کیا جائے۔ ضروری نہیں کہ یہ فرد،کوئی پیغمبر ،نامور مصلح ،اولوالعزم جنگجو ،باجرت حکمران ،معروف ادیب یا غیر معمولی شہرت کا مالک سیاست دان ہو ۔ایک غیر معروف ،معمولی اور گم نام انسان بھی سوانح نگاری کا موضوع بن سکتا ہے کیونکہ چھوٹے سے چھوٹے انسان کی صحیح سیرت کشی اور اس کے سفرحیات کی عکاسی بڑے سے بڑے انسان کی دلچسپی ہو سکتی ہے ۔

 بہترین سوانح عمری ایک فنی اور تخلیقی کارنامہ ہوتی ہے ۔ایسی سوانح عمری لکھنا آسان نہیں ۔ سوانح نگار کو بڑی مشکلات اور آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔کسی انسان کی صحیح مرقع کشی کے لیے سوانح نگار کو بیک وقت محقیق ،مورخ ،مبصر ،ماہر نفسیات اور ادیب ہونا چاہیے ۔" چونکہ ہر سوانح نگار میں ان اوصاف کا ہونا ضروری نہیں۔اس لیے دنیائے ادب میں اعلی درجے کی سوانح عمریاں بہت کم ملتی ہیں۔البتہ عظیم شخصیتوں کی ۔نہایت ادنی سوانح عمریاں بہت زیادہ ہیں ۔

 ایک معیاری اور فنی اعتبار سے بلند پایہ سوانح عمری میں بعض اہم خصوصیات اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتیں جب تک سوانح نگار بعض اصولوں کا خیال نہ رکھے ۔مثلا سوانح نگار کے لیے اپنے ہیرو کی شخصیت سے تعلق خاطر ضروری ہے۔کیونکہ ذاتی دلچسپی کے بغیر وہ اس کے حالات و واقعات معلوم کرنے میں کاوش و محنت اور تحقیق و جستجو سے کام نہیں لے گا ۔شخصیت سے مصنف کا جذباتی لگاؤ سوانح عمری کو معیاری اور بلند پایہ بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔پھر مصنف کا نقطہ نظر ہمدردانہ ہونا چاہیے۔عیب جوئی یا بے جواز نکتہ چینی سے سوانح عمری یک طرفہ اور یک رخی ہوگی ۔ہیرو کی خامیوں کو چھپانا غلط ہے مگر اسے اچھالنا بھی مستحسن نہیں ۔

 سوانح نگار کو صداقت ،غیر جانبدار اور انصاف سے کام لینا چاہیے ۔ہیرو کے محاسن و معائب یعنی اچھے اور برے دونوں پہلوؤں کا بیان منصفانہ طریقے سے کرنا چاہیے جس طرح خوبیوں کے بیان میں مبالغہ آرائی سے اجتناب ضروری ہے۔اسی طرح خامیوں کی پردہ پوشی بھی نامناسب ہے ۔یہ بھی ضروری ہے کہ سوانح نگار حالات و واقعات کی تحقیق میں بڑی کاوش و محنت سے کام لے اور صرف ایسا لوازمہ انتخاب کرے جو مستند اور تحقیقی اعتبار سے درست ہو ۔کمزور اور مشکوک روایات وواقعات کو سوانح عمری کی بنیاد بنایا جائے تو وہ غیر معیاری اور سطحی ہوگی ۔اس ضمن میں ہیرو کے روزنامچے یا یاداشت ،خطوط ،متفرق ،تحریریں ،تقریریں ،اور تصنیفات وغیرہ سوانح عمری کے لیے مستند لوازمہ ثابت ہو سکتی ہے ۔

 سوانح نگار کا نقطہ نظر اور انداز متوازن اور متعدل ہونا چاہیے۔انداز نظر کے علاوہ سوانح عمری باعتبار ایک تصنیف کے بھی متوازن اور متناسب ہی ہونا ضروری ہے۔واقعات کے  بیجا طوالت سے گریز ،بیان میں اختصار،مفہوم میں جامعیت ،اور کتاب کے مختلف حصوں اور ابواب کے درمیان ہم آہنگی کے اہتمام سے سوانح عمری معیاری اور بلند پایہ سمجھی جائے گی۔

  بیان واقعات میں علمی اور سائنٹفک انداز ضروری ہے ۔لوازمے کے انتخاب و ترتیب میں تالیفی سلیقہ مندی کا خیال رکھنا چاہیے ۔اچھا سوانح نگار ،ہمیشہ تصنیف و تالیف کے جدید اصولوں کو پہ یش نظر رکھتا ہے ۔تالیف کے فرسودہ ،روایتی ،اور گھسے پٹے انداز سے تناسب ضروری ہے ۔سلیس اور شگفتہ و رواں اسلوب سوانح عمری کو ادبی اعتبار سے دلکش بنا دیتا ہے ۔سوانح نگار کو مبلغ یا واعظ  بننے سے بچنا چاہیے ۔کیونکہ یہ اس کے منصب کے منافی ہے 

Comments

Popular posts from this blog

جماعت نہم کے بچوں کے لیے اردو ایم سی کیوز mcqs

خوشحال خان خٹک کون تھا

ملی شهيد