علی گڑھ تحریک اور تنقید
علی گڑھ تحریک اور تنقید نے زندگی کے جمال کو اجاگر کرنے کے بجائے مادی قدروں کو اہمیت دی ۔چنانچہ ادب کو بے غرضانہ مسرت کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے ایک ایسا مفید وسیلہ قرار دیا گیا جو مادی زندگی کو بدلنے اور اسےچم مائل بہ ارتقاء رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔ادب کایہ افادی پہلو بیسویں صدی میں ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوا ۔تاہم یہ اعزاز علی گڑھ تحریک کو حاصل کے کہ اردو زبان کے بالکل ابتدائی دور میں ہی اس کی عملی حیثیت کو اس تحریک نے قبول کیا اور ادب کو عین زندگی بنا دیا ۔اس اعتبار سے بقول ڈاکٹر سید عبداللہ سر سید احمد خان سب سے پہلے ترقی پسند ادیب اور نقاد تھے ۔اول الزکر حیثیت سے سر سید احمد خان ادب کو تنقید حیات کا فریضہ سر انجام دینے پر آمادہ کیا اور موخرالزکر حیثیت سے ادب کی تنقید کے موقر اصول وضع کرکے اپنے رفقاء کو ان پر عمل کرنے کی تلقین کی ۔اگر چہ سرسید احمد خان نے خود فن تنقید کی کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی لیکن ان کے خیالات نے تنقیدی رجحانات پر بڑا اثر ڈالا ۔ان کا یہ بنیادی تصورکہ اعلی تحریر وہی ہے جس میں سچائی ہو ،جو دل سے نکلے اور دل پر اثر کرے بعد میں آنے والے تمام تنقیدی تصورات کی اساس ہے۔سرسید احمد خان نے قبل عبارت آرائی اور قافیہ پیمائی کو اعلی نثر کی ضروری شرط خیال کیا جاتا تھا لیکن۔ سرسید احمد خان نے مضمون کے ادا کا ایک صاف اور سیدھا طریقہ اختیار کیا۔انہوں نے انداز بیان کے بجائے مضمون کو مرکزی اہمیت دی اور طریق ادا کو اس کی تابع کردیا ۔سرسید احمد خان کے یہ تنقیدی نظریات ان کے متعدد مضامین میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں اور ان سے سرسید احمد خان کا جامع نقطہ نظر مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ علی گڑھ تحریک نے ایک ان لکھی طیقا پر عمل کیا ۔
علی گڑھ تحریک اگر پہلے کی تنقید پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ علی گڑھ تحریک سے قبل کی تنقید صرف ذاتی تاثرات کے اظہار تک محدود تھی ،لیکن سرسید احمد خان نے ادب کو بھی زندگی کے مماثل قرار دیا اور اس پر نظری اور عملی زاویوں سے تنقید کی۔گوکہ سرسید احمد خان نے خود تنقید کی کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی تاہم ان کے رفقاء میں سے مولانا الطاف حسین حالی نے " مقدمہ شعر وشاعری " جیسی اردو تنقید کی باقاعدہ کتاب لکھی اور اس کا عملی اطلاق " یادگار غالب" میں کیا ۔مولانا حالی کے علاوہ شبلی کے تنقیدی نظریات ان کی متعدد کتابوں میں موجود ہیں ۔ان نظریات کی عملی تقلید " شعر الحجم" ہے ۔مختصر یہ کہ علی گڑھ تحریک نے تنقید کے جس نظریے کو فروغ دیا اس میں طرز ادا کے بجائے مضمون کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔مقصد یہ تھا کہ ادیب جو کچھ سوچتا ہے اس کا بنیادی مفہوم الفاظ کی شوکت اور بیان کی جلالت میں گم نہ ہو جائے بلکہ قاری تک صحیح اور صادق صورت میں پہنچ جائے ۔چنانچہ سرسید احمد خان اس نقطہ نظر کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں " تک بندی سے جو اس زمانے میں مقفی عبارت کہلاتی ہے ہاتھ اٹھایا ۔جہاں تک ہوسکا سادہ عبارت پر توجہ دی ۔اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو وہ مضمون کی ادا میں ہو،جو اپنے دل میں وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل سے نکلے دل میں بیٹھے".
Comments
Post a Comment