کلام غالب
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنۂ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقت سفر یاد آیا
سادگی ہائے تمنا،یعنی
پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا
عذر واماندگی ،اے حسرت دل
نالہ کرتا تھا،جگر یاد آیا
زندگی یوں ہی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی !
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
آہ ،وہ جرآت فریاد کہاں
دل سے تنگ آکے ،جگر یاد آیا
پھر ترے کوچے کو جاتا ہے خیال
دل گم گشتہ ،مگر یاد آیا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے !
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں نے مجنون پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
Comments
Post a Comment