ساغر صدیقی


 ساغر صديقي

اے حسن لالہ فام ! ذرا آنکھ تو ملا 

خالی پڑے ہیں جام ! ذرا آنکھ تو ملا

کہتے ہیں آنکھ آنکھ سے ملنا ہے بندگی 

دنیا کے چھوڑ کام ! ذرا آنکھ تو ملا

کیا وہ نہ آج آئیں گے تاروں کے ساتھ ساتھ

تنہائیوں کی شام ! ذرا آنکھ تو ملا

یہ جام , یہ سبو یہ تصور کی چاندنی 

ساقی کہاں مدام ! ذرا آنکھ تو ملا

ساقی مجھے بھی چاہیے اک جام آرزو

کتنے لگیں گے دام ! ذرا آنکھ تو ملا

پامال ہو نہ جائے ستاروں کی آبرو 

اے میرے خوش خرام! ذرا آنکھ تو ملا

ہیں راہ کہکشاں میں ازل سے کھڑے ہوئے 

ساغر ترے غلام! ذرا آنکھ تو ملا 

Comments

Popular posts from this blog

جماعت نہم کے بچوں کے لیے اردو ایم سی کیوز mcqs

خوشحال خان خٹک کون تھا

ملی شهيد