حمزہ شینواری

 یہ ایک حقیقت ہے کہ حمزہ شینواری پشتو زبان کے بہت بڑے شاعر ہیں ۔انہوں نے پشتو شاعری بالخصوص پشتو غزل میں وہ مقام حاصل کیا ہے جو قیامت تک ان کوامر کرنے کےلئے کافی ہے ،پشتو میں ان کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے پشتو کے ایک بڑے شاعر اور مفکر ملک الشعراء سمندر خان سمندر نے ایک مشاعرے کے دوران ان کو " غزل کا بادشاہ" کا خطاب دیا اور پھر اس کے بعد " بابائے غزل " اور شہنشائے غزل " کے ناموں سے بھی مشہور ہوئے ۔مگرحیرت کی بات یہ ہے کہ پشتو شاعری میں شہرت کے بام کو چھونے والے اس عظیم شاعر نے اپنی شاعری کا آغاز اردو سے کیا ۔بقول ان کے میں نے پانچویں جماعت میں شاعری شروع کی ،چونکہ ذریعہ تعلیم اردو تھی اس لئے اردو میں لکھنے لگا ،مجھے افسوس ہے کہ وہ اشعار مجھے یاد نہیں رہے کیونکہ میں انہیں محفوظ نہیں رکھا کرتا تھا ۔اس کی تحریک شاید ہمارے ایک استاد مرزا عباس علی بیک صاحب کی شاعری سے ہوئی ۔

پھر اپنی اس اردو شاعری کی ابتدا کے بارے میں آگے چل کر کچھ اس طرح بتاتے ہیں۔" جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت اسلامیہ کالج کے ایک طالب علم شہزاد سکندر ہوا کرتے تھے ،وہ بخارا کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،اور اردو شعر کہا کرتے تھے ،چنانچہ ان کے اشعار سے متاثر ہوکر بھی شعر کہنے لگا اور ایک دفعہ غزل کے چند شعر لکھ کر دکھائے مگر انہوں نے پسند نہیں کئے ،بعد میں مولانا عبد القادر مرحوم کو دکھائے جو اس وقت آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے ۔انہوں نے پسند فرمائے ۔مناسب اصلاح دی اور حوصلہ افزائی کی ۔اس وقت مجھے یاد نہیں آرہا کہ وہ اشعار کیا تھے ،بہرحال تھوڑے بہت لکھے تھے اور کہیں پھینک دیئے تھے اور سکول سے چلے جانے کے بعد خیالات نسبتا منسیا ہوگئے ،یہ خیال بھی نہیں آیا کہ کیا لکھا تھا اور اب کیا لکھنا چاہیے ۔چند اشعار نمونے کے طور پر ملاحظہ کرتے ہیں ۔

وہ ناپدید ہوگئے کثرت سے دید کی 

ہم کیا نظامی راہ گزر دیکھتے رہے

بے خودی میں رنگ یہ حمزہ خودی کا چھوڑ دے 

تا ہو بارش دن بدن اس یار سے انعام کی 

ہم جوہر معانی حیرت میں کھو گئے

آئینہ ساز اپنا ہنر دیکھتے رہے 


Comments

Popular posts from this blog

جماعت نہم کے بچوں کے لیے اردو ایم سی کیوز mcqs

خوشحال خان خٹک کون تھا

ملی شهيد