نہ خوف خدا ہے نہ خوف خدائی
بشر دے رہا ہے بشر کی دہائی
نہ جانے کہاں کھو گئی ہے مروت
بڑی دور تک تو مرے ساتھ آئی
نگاہوں کے اندر بدلے گئے ہیں
وہی ہے مگر رسم جلوہ نمائی
کسی کے مہکتے ہوئے گیسوؤں میں
شگوفوں نے سیکھی ہے شعلہ نوائی
فضائے مقدر بدل دی ہے ساغر
نظر جب کبھی زندگی سے ملائی
Comments
Post a Comment