گیت
گیت گانے کی چیز کو کہتے ہیں ۔اس کا موسیقی سے گہرا تعلق ہے ۔اس لیے گیت میں سرتال کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔اصطلاح میں گیت وہ صنف شعر ہے جس میں ایک عورت ،مرد کو مخاطب کرکے اظہار محبت کرتی ہے ۔گیت میں جذبات واحساسات خصوصا ہجر اور فراق کی کیفیت بڑے والہانہ انداز میں بیان کی جاتی ہے ۔بعض گیتوں میں محبت کا اظہار مرد کی طرف سے بھی ہوتا ہے مگر گیت کا بنیادی مزاج یہی ہے کہ وہ محبت میں مبتلا ایک عورت کے دل کی پکار ہے ۔
اردو گیت کی بنیاد ہندی گیت پر ہے۔ لہذا اس کی فارم اور زبان وبیان پر ہندی گیتوں کا گہرا اثر ہے ۔اردو گیت میں بھی ہندی کے الفاظ ،خالص ہندوستانی تلمیحات اور مقامی موسموں ،درختوں اور پھلوں وغیرہ کے نام بکثرت استعمال ہوتے ہیں ۔گیت کا لہجہ نسائی اور دھیما اور الفاظ نرم اور سبک ہوتے ہیں ۔گیت کا مجموعی مزاج نسوانی اور مقامی ہے۔گیت کی کوئی خاص ہیئت مقرر نہیں ۔
امیر خسرو کے بعض اشعار میں اردو گیت کی اولین جھلک نظر آتی ہے ۔دکنی شعرا میں محمد قلی قطب شاہ ،وجہی ،غواصی ،میراں شاہ ہاشمی کی شاعری میں اردو گیت کے ابتدائی نمونے ملتے ہیں کیونکہ ان کا لہجہ نسوانی ہے ،زبان ہندی ہے اور اظہار محبت عورت کی طرف سے ہوا ہے ۔اردو شاعری کا مرکز دکن سے شمالی ہند منتقل ہوا تو وہاں گیت پروان چڑھ سکا کیونکہ دہلی کی ادبی فضاگیت کے فروغ کےلیے سازگار نہ تھی ۔انسویں صدی میں امانت لکھنوی نے " اندر سبھا " تصنیف کی ۔یہ ایک ڈراما تھا اور ڈرامے کی فضا گیت کے لیے بڑی مناسب ہوتی ہے ۔اس میں گیت کے عمدہ نمونے اور ڈرامے بڑی کثرت سے لکھے اور کھیلے جانے لگے چنانچہ اکثر ڈرامہ نگاروں خصوصاً آغا حشر نے گیت لکھے ۔
عظمت اللہ خان وہ پہلے گیت نگار ہیں ۔جنھوں نے اردو میں منفرد اسلوب کے گیت لکھ کر گیت کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ان کے بعض گیتوں میں خطاب عورت کی طرف ہیں مگر گیت کا مزاج بدستور قائم ہیں ۔گیت کی مثال ملاحظہ ہے
آم پہ کوئل کوک اٹھی ہے
سینے میں ایک ہوک اٹھی ہے
بن جاؤں نہ کہیں سو دائی
جانوروں کی رام دہائی
چھبتی ہے نس نس میں
دل ہے پرائے بس میں
حفیظ جالندھری
Comments
Post a Comment