Posts

Showing posts from May, 2024

مکتوب نویسی کیا ہے

 مکتوب نویسی  ماضی الضمیر کے اظہار کے مختلف ذریعے اور طریقے ہیں۔ان میں سے ایک خط نویسی ہے یہ بنیادی طور پر بات چیت کا بدل ہے خط کو نصف ملاقات کہا جاتا ہے ۔یہ گویا تحریری گفتگو کا دوسرا نام ہے ۔خط میں لکھنے والے کی شخصیت بول رہی ہوتی ہے ۔چنانچہ خط اس طرح لکھا جائے جیسے مکتوب الیہ سامنے بیٹھا ہے ۔خط لکھنا ایک فن ہے ۔سیکھنے اور مشق کرنے سے اس فن میں مہارت حاصل کی جاسکتی ہے ۔ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں ۔" خط بڑا ہی نازک فن ہے ۔یہ کاریگری بھی ہے اور آئینہ سازی بھی ۔یہ مختصر اور محدود بھی ہے اور وسیع وبے کراں بھی ۔یہ حد سے زیادہ شخصی بھی ہے مگر اس کے باوجود آفاقی اور اجتماعی بھی ۔اس میں دانش بھی ہے اور بینش بھی ۔یہ بظاہر کچھ بھی نہیں مگر اس کا ہر ورق پھر بھی دفتر ہے معرفت کردگار اور معرفت انسان دونوں کا ۔یہ لکھنے والے کےلیے محض عرض سخن ہے مگر پڑھنے والے کے لیے گنجینہ فن بھی ہو سکتا ہے ۔غرض خط ایک جہاں راز ہے ۔جس کے راز اگر سر بستہ رہیں تو سینوں کو گہر ہائے معنی دفینے بنا دیں اور اگر آشکار ہو جائیں جو جذبے کی ساری دنیا مشک زار بن جائے ۔ اچھے خط کی خصوصیات 1 سادگی اور برجستگی : سادگی...

امیر مینائی کون تھا ؟

 امیر مینائی نام اور تخلص امیر تھا ۔سلسلہ نسب آپ کا شاہ مینا تک پہنچتا ہے اسی تعلق سے مینائی کہلاتے ہیں ۔والد کا نام کرم محمد مینائی تھا۔امیر لکھنو میں پیدا ہوا۔ابتدائی تعلیم بھی والد کی نگرانی میں ہوئی ۔تعلیم کی بعض منزلیں فرنگی محل میں طے ہوئیں اور یہیں سے شعر وشاعری کا شوق پیدا ہوا ۔ شاعری شروع کی تو اسیر جو اس وقت واجد علی شاہ کے استاد تھے ان کے شاگرد بنے ۔اپنے استاد اسیر کی بدولت امیر مینائی کی رسائی واجد علی شاہ کے دربار تک ہوئی ۔موزونی طبیعت اور علمی استعداد کی بدولت بہت جلد شعر گوئی میں کمال حاصل کرلیا اور اپنے استاد کے لیے باعث فخر ہوگئے ۔ 1857 کے ہنگامے کے بعد امیر مینائی کو بھی لکھنو سے نکلنا پڑا ۔لکھنو سے نکلنے کے بعد کاکوری چلے گئے ،جہاں ان کی ملاقات محسن کاکوری سے ہوئی ۔محسن کاکوری کی صحبت کے اثر سے امیر مینائی نے نعت گوئی شروع کی ۔1857 کا ہنگامہ جب ختم ہوا تو ان کے استاد مظفر علی اسیر کی تحریک پر نواب یوسف علی ناظم رام پور نے ان کو رام بلا لیا ۔پھر امیر ،نواب یوسف خان کی ملازمت میں داخل ہوگئے ۔نواب یوسف علی خاں کے انتقال کے بعد نواب کلب علی خان کے زمانے میں ان کا اعز...

صنائع معنوی اور صنائع لفظی کیا ہے ؟

 صنائع معنوی 1 تضاد: کلام میں دو ایسے لفظ جمع کریں ۔جن میں ایک لفظ کے معنی دوسرے کے معنی کی ضد ہوں ۔جیسے شب وروز ۔آب و آئش ۔ 2 تدبیج: کسی کلام میں مختلف رنگ بیان کئے جائیں ( عموماً یہ ذکر بطور کنایہ کے ہوتا ہے ۔اس لئے معنوں میں خاص حسن پیدا ہو جاتا ہے ۔جیسے  یاں کے سفید وسیہ میں ہم کو دخل جو ہے سواتنا ہے  رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں جوں توں شام کیا 3 مراعات النظیر: کلام میں چند ایسی چیزوں کا ذکر کرنا جن میں باہم کسی قسم کی مناسبت ہو لیکن یہ مناسبت تضاد کی نہ ہو  جیسے باغ کے ساتھ گل ،خیابان ،سنبل انار وغیرہ کا ذکر آئے ۔اس صنعت کا دوسرا نام تناسب ہے ۔ صنائع لفظی 1 تجنیس: کلام میں دو ایسے لفظ لانا جو تلفظ میں مشابہ ہوں مگر معنوں میں مختلف ہوں ۔اس کی کئی قسمیں ہیں جن میں زیادہ ضروری یہ ہیں ۔ 2 تجنیس تام : کلام میں دو ایسے لفظ لانا جو لکھنے اور پڑھنے میں یکساں ہوں لیکن معنی مختلف رکھتے ہوں ۔جیسء آہنگ کا لفظ کسی عبارت یا شعر میں دو بار آئے ۔ایک جگہ آواز کے معنی ہوں اور دوسری جگہ ارادہ کے یا مثلا  کہاں دل نے مرے دیکھی جو وہ مانگ  کہ ہے یہ رات آدھی کچھ دعا م...

کنایہ

 کنایہ  اگر کسی لفظ کو استعمال کرکے اس کے لازم معنی مراد لئے جائیں لیکن وہاں اس کے حقیقی معنی سمجھنے بھی جائز ہوں تو اسے کنایہ کہتے ہیں ۔جیسے  سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پراے طرف کلاہ  مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھپنے ترا لمبر سہرا  سر پہ چڑھنا سے اس کے لازم معنی یعنی گستاخ ہونا اور حقیقی معنی ٹوپی سر پر رکھنا دونوں مراد لئے جاسکتے ہیں۔ کنایہ کی قسمیں یہ ہیں ۔ 1 کنایہ بعید : وہ ہے جو جلدی ذہن میں آجائے۔اس میں کوئی ایسی صفت لائی جاتی ہے ۔جس سے موصوف آسانی سے ذہن میں آجاتا ہے۔جیسے سفید ریش کہہ پیری سے کنایہ کرنا ۔  لیکن اگر کئی صفتیں لائی جانیں جن کے جمع کے جمع کرنے سے موصوف ذہن میں آئے تو اسے کنا یہ بعید کہتے ہیں جیسے   ساقی وہ دے ہمیں کہ ہوں جس کے سبب بہم   محفل میں آب و آتش و خور شید ایک جا   آب و آتش و خورشید کے مجموعی اوصاف یکجا شراب میں پائے جاتے ہیں اور اسی سے کنایہ کیا گیا ہے   ۔کنایہ سے کسی امر کا اثبات یا نفی مطلوب ہو ۔جیسے دونوں ایک سانچے میں ڈھلے ہیں ۔  یہ بات کہہ کر مطلب لیا جائے کہ وہ دونوں ایک جیسے ہیں۔(نفی )...