امیر مینائی کون تھا ؟

 امیر مینائی نام اور تخلص امیر تھا ۔سلسلہ نسب آپ کا شاہ مینا تک پہنچتا ہے اسی تعلق سے مینائی کہلاتے ہیں ۔والد کا نام کرم محمد مینائی تھا۔امیر لکھنو میں پیدا ہوا۔ابتدائی تعلیم بھی والد کی نگرانی میں ہوئی ۔تعلیم کی بعض منزلیں فرنگی محل میں طے ہوئیں اور یہیں سے شعر وشاعری کا شوق پیدا ہوا ۔

شاعری شروع کی تو اسیر جو اس وقت واجد علی شاہ کے استاد تھے ان کے شاگرد بنے ۔اپنے استاد اسیر کی بدولت امیر مینائی کی رسائی واجد علی شاہ کے دربار تک ہوئی ۔موزونی طبیعت اور علمی استعداد کی بدولت بہت جلد شعر گوئی میں کمال حاصل کرلیا اور اپنے استاد کے لیے باعث فخر ہوگئے ۔

1857 کے ہنگامے کے بعد امیر مینائی کو بھی لکھنو سے نکلنا پڑا ۔لکھنو سے نکلنے کے بعد کاکوری چلے گئے ،جہاں ان کی ملاقات محسن کاکوری سے ہوئی ۔محسن کاکوری کی صحبت کے اثر سے امیر مینائی نے نعت گوئی شروع کی ۔1857 کا ہنگامہ جب ختم ہوا تو ان کے استاد مظفر علی اسیر کی تحریک پر نواب یوسف علی ناظم رام پور نے ان کو رام بلا لیا ۔پھر امیر ،نواب یوسف خان کی ملازمت میں داخل ہوگئے ۔نواب یوسف علی خاں کے انتقال کے بعد نواب کلب علی خان کے زمانے میں ان کا اعزاز اور مرتبہ زیادہ بڑھ گیا تھا ۔رام پور میں ان کو بڑی عزت حاصل تھی ۔وہ ایک بڑی ادبی اور سوشل سمجھے جاتے تھے ۔تنخواہ بھی معقول تھی عزت اور مزے سے زندگی بسر ہوتی تھی اور شعر وشاعری اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہتے تھے ۔امیر مینائی نے 43 برس رام پور میں بسر کئے ۔بعد میں حیدر آباد چلے گئے ۔

امیر مینائی کی شاعری 

رام پور کی ملازمت نہ صرف امیر مینائی کی زندگی بلکہ عام لکھنوی شاعری کی تاریخ میں بھی ایک اہم زمانہ ہے ،کیونکہ  دہلی اور لکھنو کی تباہی کے بعد رام پور ہی ایک ایسا دربار تھا جہاں ہر فن کے کامل کے استاد اور امام موجود تھے اور یہاں پر پہلی مرتبہ دہلی اور لکھنو کے شعراء نے ایک دوسرے سے فایدہ اٹھایا اور ان کی شاعری کا رنگ ایک دوسرے سے متاثر ہوا ۔اس کا اثر امیر مینائی کی شاعری پر بھی پڑا چنانچہ ان کے کلام میں یہ اثر واضح طور پر نظر آتا ہے ۔اس کےلیے ان کے دیوان " مراۃ الغیب " اور " صنم خانہ عشق " کو دیکھا جا سکتا ہے امیر مینائی کے کلام کا نمونہ ملاحظہ ہے ۔

اگر درکار ہے رنگین تمھیں تکمہ گریباں کا 

لگاو لعل اس میں قطرہ خون شہیداں کا 

خیال طرہ بندھ جائے نہ کیونکر چور کی صورت 

طلا یہ پھر رہا ہے آنکھ میں خواب پریشاں کا 

زنخداں پر جو انگشت حنائی یار نے رکھی 

تو میں سمجھا کہ ہے سیب ذقن پھل شاخ مرجاں کا 

ہوتے ہیں تر پسینے سے آغوش میں حسین 

پھولوں سے مجھ کو ڈھب ہے عرق کی کشید کا 

طوطی ہے آج کل سگ جاناں کا بولتا 

لذت میں نیشکر ہیں ،میرے استخواں نہیں 


Comments

Popular posts from this blog

جماعت نہم کے بچوں کے لیے اردو ایم سی کیوز mcqs

خوشحال خان خٹک کون تھا

ملی شهيد