فصاحت و بلاغت :
جو کلام زبان کے روزمرہ کے مطابق ہو ۔تنافر حروف اور غریب وناموس الفاظ سے پاک ہو ۔جس میں لغت اور نحو کے قواعد سے انحراف نہ ہو اور جس میں تعقید یا کوئی دوسرا عیب نہ پایا جائے فصیح کہلاتا ہے اور کلام کے اس وصف کو فصاحت کہتے ہیں ۔
موسیقی کانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے ،لیکن بھدی اور بے اصول موسیقی سامعہ کے لیے بار ہو جاتی ہے ۔اسی طرح صرف متناسب الفاظ کا استعمال اور کلام میں ان کی ترتیب فصاحت پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔
یہ خیال رکھنا چاہیے کہ فصاحت کا تعلق زیادہ تر الفاظ سے ہے اور معنی سے کم ہے ۔ہوسکتا ہے کہ اچھے معانی ہوں مگر بیان میں فصاحت نہ ہو ۔اس صورت میں کلام کا اثر بہت کم ہو جاتا ہے بلکہ بعض حالات میں ذوق سلیم اس کو قبول نہیں کرتا مثلا
آج جس علم وہنر سے ہے چراغاں بزم قوم
ہم نے بنیاد اس کی دی تھی پشیتر دنیا میں ڈال
حالی
دوسرے مصرعے میں بھدی قسم کی تعقید ہے ۔اس لئے یہ شعر فصیح نہیں کہا جاسکتا ۔حالانکہ مضمون کے لحاظ سے ایک اچھی بات کہی گئی ہے ۔
الفاظ کی اچھی ترتیب ،آہنگ کا توازن اور بندش کا حسن فصاحت پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے ۔اس کو سمجھنے کےلئے چند ایسی مثالیں دیکھے کہ ایک مضمون جو ایک شعر میں فصاحت سے اداہوا ،دوسرے شعر میں کیونکر اور زیادہ فصیح ہو جاتا ہے ۔
دل بے آرزو بھی دے تو ہے لطف
یوں تو سب کچھ دیا خدا نے مجھے
امیر مینائی کا یہ شعر اچھا ہے لیکن ہی مضمون داغ کے ہاں اس سے بہتر ہے ۔
لاکھ دینے کا ایک دینا ہے
دل بے آرزو دیا تو نے
زمانہ جس کو مٹائے ،بھلائے خلق جسے
عبث ہے خوش ہوں جو ایسے نشان ونام سے ہم
شعر اچھا ہے لیکن ہی مضمون اکبر کے اس دوسرے شعر میں زیادہ فصاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
بھلا ہی دیتی ہو جس کو دنیا مٹا ہی دیتا ہو جس کو گردوں
عبث ہے انسان چاہتا ہو جو نام ایسا نشان ایسا
فصاحت و بلاغت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔عموما جہاں ایک چیز پائی جائے گی وہاں دوسری بھی ہوگی ۔لیکن جیسا کہ ان تعریفوں سے ظاہر ہوتا ہے یہ ممکن ہے کہ ایک کلام میں فصاحت تو پائی جائے یعنی نہ وہاں زبان اور روزمرہ کی لغزش ہو ،نہ تنافر حروف ہو ،نہ غریب اور ثقیل الفاظ آئیں ،نہ تعقید ہو اور نہ اور کسی قسم کی لغوی یا نحوی غلطی پائی جائے ۔مگر اس کے بعد بھی ممکن ہے کہ وہ کلام مقتضائے حال کے مطابق نہ ہو اور اس لئے اس میں بلاغت نہ پائی جائے ۔
Comments
Post a Comment