Posts

جماعت نہم کے بچوں کے لیے اردو ایم سی کیوز mcqs

  جماعت نہم 1   سبق "اخلاق نبوی " ص کا مصنف کون ہے الف مولانا شبلی نعمانی ب سر سید احمد خان  ج محمد حسین آزاد  د میر تقی میر 2 بہادر شاہ ظفر کے والد کا نام کیا تھا الف بہادر شاہ ثانی ب اکبر شاہ ثانی  ج لعل شاہ ثانی  د احمد شاہ ثانی 3 " ندوۃ العلماء " کس مصنف نے قائم کیا تھا الف سر سید احمد خان  ب  الطاف حسین حالی  ج  مولانا شبلی نعمانی  د مولوی نذیر احمد 4  مرزا اسداللہ خان غالب کہا پیدا ہوئے . الف دہلی  ب کلکتہ   ج  لاہور د  آگرہ 5 مولانا شبلی نعمانی کس سن میں وفات پائی . الف   1914  ب 1915  ج 1916  د 1917 6 کس شاعر کو مشکل پسند شاعر کہا جاتا ہے. الف میر تقی میر   ب  اسداللہ خان غالب  ج حسرت موہانی د الطاف حسین حالی 7 خواجہ الطاف حسین حالی کس سن میں پیدا ہوئے . الف 1835    ب 1836  ج 1837  د  1838 8 کس شاعر کو دبستان لکھنو کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے . الف بہادر شاہ ظفر  ب سرسید احمد خان  ج میر تقی ...

ملی شهيد

 ملی شهيد   خوشحال بابا څومره ښه وئيلي    مړۀ هغه چې نۀ ئې نوم نۀ یې نښان وي. تل تر تله پۀ ښۀ نوم پائي ښاغلي. دا ده خداي پاک نظام دے چې بعضي خلق ظاهري توګه باندې د خلقو د سترګو نه پناه کړي خو د خلقو په زړونو کښې ئې د تل د پاره ژوندي وساتي په دې خلقو کښې يو ښاغلے حضرت نعيم ګيلامن پښتين هم دے. ګيلامن پښتين چې د شمالي وزیرستان اوسيدونکے دے او خداي پاک ورته د شعر وئېلو او ليکلو طاقت ورکړے دے او داسې طاقت ئې ورکړے چې په ډېر کمو شاعرانو کښې مونږ ته په نظر راځي. پښتو ادب ته ئې دې نه مخکښې هم شعري مجموعه ورکړے دے او دا ئې اوس بله شعري مجموعه ″له تاسو دومره ګيلامن يمه چې حد نه لري″ بازار ته راغلې ده دغه شعري مجموعه چې يو سل درې مخه لري او د راټولولو يې زيار اجمل خټک يوسفزي کړې او يو لويه سريزه ئې په هم ليکلې ده دغه کتاب بنيادي توګه د غزلونو، نظمونو او ټپيزو باندې مشتمل دے. او په هر بيت کښې ئې د محکومې جنګ وهلې پښتونخوا په يو نه يو شکل کښې تصوير دنيا ته ښودلې دے چې پښتنو سره کومه لوبه روانه ده، دوي د کومو مرحلو نه تېريږي او بيا په خاصه توګه ړنګ بنګ وزيرستان خلق د کومو حالاتو س...

منظور پشتیں کون ہے ؟

پیدائش..... . 25 اکتوبر 1994...... عمر 28 اور 29 سال کی درمیان.... جائے پیدائش.... پاکستان بلکہ شاید ایشیا  کی پسماندہ ترین، بدقسمت جنگ زدہ علاقوں میں سے ایک "سروکئی"، وزیرستان... والد عبدالودود صاحب ایک معمولی سرکاری سکول ٹیچر ... یہ آج دنیا کے سب سے زیادہ مشہور و   مقبول ہیومن رائٹس علمبردار منظور پشتون کی تاریخی و علاقائی محل وقوع ہے..... سفر زندگی life trajectory... سولہ سترہ سال عمر تک  چار دفعہ  ارمی و طالبان کی نوراکشتی میں نقل مکانی و پناہ گزینی پر مجبور ہوتا رہا. وزیرستان کے کاٹتے ہوئے سردی میں غریب ماں باپ اور سات بہن بھائیوں کے ساتھ کئی کئی راتیں خالی پیٹ ڈی آئی خان اور بنوں کے پناگزین کیمپوں تک کبھی پیدل، کبھی خستہ حال فلائنگ کوچوں، ڈاٹسنوں اور منی ٹرکوں کا سفر کرتارہا. اسی در بدری اور بے خانمانی میں بنوں، کرک اور ڈی ائی خان میں تعلیم حاصل کی..... اور ڈی وی ایم کی ڈگری لی. دو ہزار نو میں جبری نقل مکانی میں ڈی آئی خان آرہا تھا. چیک پوسٹ پر ملٹری والے چند دوسرے نقل مکانی کرنے والے پشتون  عورتوں سے بدسلوکی کر رپے تھے...... منظور نے احتجاج کی..... م...

عدم تشدد کیا ہے ؟

 عدم تشدد  خدائی خدمتگاروں کی سب سے نمایاں خصوصیات یہ تھی کہ انھوں نے عدم تشدد کے اصولوں کو نہ صرف اپنا لیا تھا بلکہ بہت سختی سے ان پر عمل پیرا بھی تھے ۔اس تحریک میں شامل رضا کاروں کو تشدد کرنے اور ہتھیار رکھنے سے گریز کی تربیت دی جاتی تھی ۔تحمل اور برداشت پر بہت زور دیا جاتا تھا ۔انہیں کہا جاتا تھا کہ اگر ان کی تذلیل بھی ہو رہی ہو تب بھی انہیں انتقام سے گریز کرنا چاہیے ۔اس ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی مکی زندگی ان کے سامنے بطور مثال پیش کی جاتی تھی جنہوں نے اسلام کے ابتدائی دنوں میں کفار مکہ کے تمام تر مظالم نہایت صبر اور تحمل کے ساتھ برداشت کئے تھے ۔انہیں یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کے پاس انتقام کا موقع موجود تھا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سبھی مفتوحین کو معاف فرما دیا تھا ۔   دیگر تمام قبائلی معاشروں کی طرح پختون معاشرہ بھی اپنے اندرونی اختلافات اور تشدد کی وجہ سے بدنام تھا ۔خان عبدالولی خان کی بنیادی توجہ اس جانب تھی کہ پختونوں کو خاص طور پر " تربورولی " کی بنیاد پر جاری رکھی جانے وال...
 فصاحت و بلاغت :  جو کلام زبان کے روزمرہ کے مطابق ہو ۔تنافر حروف اور غریب وناموس الفاظ سے پاک ہو ۔جس میں لغت اور نحو کے قواعد سے انحراف نہ ہو اور جس میں تعقید یا کوئی دوسرا عیب نہ پایا جائے فصیح کہلاتا ہے اور کلام کے اس وصف کو فصاحت کہتے ہیں ۔ موسیقی کانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے ،لیکن بھدی اور بے اصول موسیقی سامعہ کے لیے بار ہو جاتی ہے ۔اسی طرح صرف متناسب الفاظ کا استعمال اور کلام میں ان کی ترتیب فصاحت پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ فصاحت کا تعلق زیادہ تر الفاظ سے ہے اور معنی سے کم ہے ۔ہوسکتا ہے کہ اچھے معانی ہوں مگر بیان میں فصاحت نہ ہو ۔اس صورت میں کلام کا اثر بہت کم ہو جاتا ہے بلکہ بعض حالات میں ذوق سلیم اس کو قبول نہیں کرتا مثلا  آج جس علم وہنر سے ہے چراغاں بزم قوم  ہم نے بنیاد اس کی دی تھی پشیتر دنیا میں ڈال  حالی  دوسرے مصرعے میں بھدی قسم کی تعقید ہے ۔اس لئے یہ شعر فصیح نہیں کہا جاسکتا ۔حالانکہ مضمون کے لحاظ سے ایک اچھی بات کہی گئی ہے ۔ الفاظ کی اچھی ترتیب ،آہنگ کا توازن اور بندش کا حسن فصاحت پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے ۔اس کو سمجھنے...

مکتوب نویسی کیا ہے

 مکتوب نویسی  ماضی الضمیر کے اظہار کے مختلف ذریعے اور طریقے ہیں۔ان میں سے ایک خط نویسی ہے یہ بنیادی طور پر بات چیت کا بدل ہے خط کو نصف ملاقات کہا جاتا ہے ۔یہ گویا تحریری گفتگو کا دوسرا نام ہے ۔خط میں لکھنے والے کی شخصیت بول رہی ہوتی ہے ۔چنانچہ خط اس طرح لکھا جائے جیسے مکتوب الیہ سامنے بیٹھا ہے ۔خط لکھنا ایک فن ہے ۔سیکھنے اور مشق کرنے سے اس فن میں مہارت حاصل کی جاسکتی ہے ۔ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں ۔" خط بڑا ہی نازک فن ہے ۔یہ کاریگری بھی ہے اور آئینہ سازی بھی ۔یہ مختصر اور محدود بھی ہے اور وسیع وبے کراں بھی ۔یہ حد سے زیادہ شخصی بھی ہے مگر اس کے باوجود آفاقی اور اجتماعی بھی ۔اس میں دانش بھی ہے اور بینش بھی ۔یہ بظاہر کچھ بھی نہیں مگر اس کا ہر ورق پھر بھی دفتر ہے معرفت کردگار اور معرفت انسان دونوں کا ۔یہ لکھنے والے کےلیے محض عرض سخن ہے مگر پڑھنے والے کے لیے گنجینہ فن بھی ہو سکتا ہے ۔غرض خط ایک جہاں راز ہے ۔جس کے راز اگر سر بستہ رہیں تو سینوں کو گہر ہائے معنی دفینے بنا دیں اور اگر آشکار ہو جائیں جو جذبے کی ساری دنیا مشک زار بن جائے ۔ اچھے خط کی خصوصیات 1 سادگی اور برجستگی : سادگی...

امیر مینائی کون تھا ؟

 امیر مینائی نام اور تخلص امیر تھا ۔سلسلہ نسب آپ کا شاہ مینا تک پہنچتا ہے اسی تعلق سے مینائی کہلاتے ہیں ۔والد کا نام کرم محمد مینائی تھا۔امیر لکھنو میں پیدا ہوا۔ابتدائی تعلیم بھی والد کی نگرانی میں ہوئی ۔تعلیم کی بعض منزلیں فرنگی محل میں طے ہوئیں اور یہیں سے شعر وشاعری کا شوق پیدا ہوا ۔ شاعری شروع کی تو اسیر جو اس وقت واجد علی شاہ کے استاد تھے ان کے شاگرد بنے ۔اپنے استاد اسیر کی بدولت امیر مینائی کی رسائی واجد علی شاہ کے دربار تک ہوئی ۔موزونی طبیعت اور علمی استعداد کی بدولت بہت جلد شعر گوئی میں کمال حاصل کرلیا اور اپنے استاد کے لیے باعث فخر ہوگئے ۔ 1857 کے ہنگامے کے بعد امیر مینائی کو بھی لکھنو سے نکلنا پڑا ۔لکھنو سے نکلنے کے بعد کاکوری چلے گئے ،جہاں ان کی ملاقات محسن کاکوری سے ہوئی ۔محسن کاکوری کی صحبت کے اثر سے امیر مینائی نے نعت گوئی شروع کی ۔1857 کا ہنگامہ جب ختم ہوا تو ان کے استاد مظفر علی اسیر کی تحریک پر نواب یوسف علی ناظم رام پور نے ان کو رام بلا لیا ۔پھر امیر ،نواب یوسف خان کی ملازمت میں داخل ہوگئے ۔نواب یوسف علی خاں کے انتقال کے بعد نواب کلب علی خان کے زمانے میں ان کا اعز...