Posts

Showing posts from February, 2024

رحمان بابا کون تھا ؟

رحمان بابا مہمند قبیلے کی مشہور شاخ سڑہ بن سے تعلق رکھتے تھے ۔وہ شاعر انسانیت ہمہ جہت صوفی ،نابغہ روزگار فلسفی اور درویش صفت انسان تھے ۔رحمان بابا خوشحال خان خٹک کی اولاد کے ہم عصر تھے ۔پنجابی ادب میں جو مقام بابا بلھے شاہ اور سندھی ادب میں عبد الطیف بھٹائی کو حاصل ہے ،وہی مقام پشتو میں رحمان بابا کو حاصل ہے ۔رحمان بابا 1634 ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے ۔ان کا کلام زبان کی سلاست اور بیان کی شیرینی کا مظہر ہے ۔انہوں نے قلندرانہ طرز زندگی اختیار کیا اور زیادہ تر اخلاقی مضامین اور فکر آخرت وغیرہ کو شاعری کا موضوع بنایا ۔ رحمان بابا قدیم پشتو شاعری میں ایک ٫ سبک ، کے بانی بھی تھے ۔ان کی ساری شاعری غزلیات پر مشتمل ہے ۔سوزوگداز ،شوخی ،جوش اور کیف ومستی رحمان بابا کی غزل کی نمایاں خصوصیات ہیں۔تعزل کی صحیح روح انہی کے کلام میں ملتی ہے ۔پشتو ادب میں اکبر زمینداری نے پشتو غزل کی جس روایت کی بنیاد ڈالی ،روشانیوں نے اسے آگے بڑھایا ،خوشحال خان خٹک نے بام عروج تک پہنچانا اور رحمان بابا نے اسے مقبول بنایا ۔ رحمان بابا کے نمونہ کلام کا ترجمہ ملا حظہ فرمائیں ۔ سخاوت سے خزانوں میں کمی آتی نہیں ہرگز کنوئیں...

اجمل خٹک کون تھا ؟

جدید پشتو شاعری کا ایک اہم اجمل خٹک ہے ۔تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بطور معلم انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا ۔اس کے بطور اسکرپٹ رائٹر ریڈیو پاکستان پشاور سے وابستہ ہوگئے 48-1947 کے دوران میں متعدد ادبی جریدوں کے مدیر رہے اور کالم نویسی بھی کی ۔انھوں نے جدید پشتو شعری ادب میں ایک نیا انداز اور معنوی اعتبار سے نظم کا ایک منفرد اسلوب بھی متعارف کرایا ،گوکہ ان کی شاعری کی ابتدا غزل سے ہوئی تھی ،مگر ان کی نظم بھی اپنے اندر زندہ رہنے کا بھرپور احساس رکھتی ہے ۔بنیادی طور پر ترقی پسند اور حقیقت پسند شاعر ہیں ۔ترقی پسند تحریک میں احمد ندیم قاسمی ،فیض احمد فیض ،حبیب جالیب ،اور میر گل نصیر ہم سفر رہے ۔ان کی شاعری ترقی پسندانہ افکار کی غماز ضرور ہے لیکن انہوں نے اسے محض پروپیگنڈے کا ذریعہ نہیں بنایا ،بلکہ جمالیاتی اقدار اور فنی محاسن کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ۔عمومی طور پر ان کی شاعری میں انسانیت کی بھلائی کا پیغام بھی ہے اور روشن مستقبل کی نوید بھی اور اپنی تلخ زندگی کی واردات کی بازگشت بھی ۔قیام پاکستان کے بعد جدید پشتو شاعری میں ان کی شاعری اور بالخصوص ان کی نظموں کو ہمہ گیر شہرت اور مقبولیت حا...

مشتاق احمد یوسفی کون تھا ؟

مشتاق احمد یوسفی 1923 میں راجھستان کی ایک چھوٹی سی مسلم ریاست " ٹونگ " کے ایک تعلیم یافتہ مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد محترم عبد الکریم خان یوسفی جے پور شہر میں کاروبار کرتے تھے ،اور سیاست میں بھی دلچسپی لیتے تھے ۔وہ جے پور کی میونسپل کمیٹی کے چیئرمین اور بعد ازاں ریاستی اسمبلی کی حزب مخالف کے رہنما بھی رہے ۔وہ بڑے نیک دل ،خدا ترس اور نیک سیرت انسان تھے ۔حیدرآباد ( دکن ) پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے بعد پاکستان کی حمایت میں تقریر کرنے پر انہیں بھارت چھوڑنا پڑا اور وہ ہجرت کرکے کراچی گئے ۔ مشتاق احمد یوسفی نے ابتدائی تعلیم گھر ہی سے حاصل کی ،اور عربی ،فارسی ،دینیات کے علوم مدرسے میں ہی پڑھے ۔انٹرمیڈیٹ کا امتحان انھوں نے راجپوتانہ بورڈ سے پاس کیا ،اور آگرہ یونیورسٹی سے بی ۔اے درجہ اول میں کیا ۔1945 میں انھوں نے مسلم کمرشل بینک کے مینجر کے طور پر اپنی ملازمت کا آغاز کیا ،اور پھر ترقی کرتے اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے پاکستان بیکنگ کونسل کے چیئرمین کے منصب جلیلہ تک پہنچے ۔ خصوصیات کلام: مشتاق احمد یوسفی ایک فطری مزاح نگار ہیں ۔ان کی مزاح نگاری کی کاٹ اور تیکھے پن میں...

پشتو ایک آریائی زبان ہے ۔

 پشتو ایک آریائی زبان  پشتو زبان کے حوالے سے محقیقین مختلف قسم کے آرائے رکھتے ہیں ۔جو لوگ پشتو کو آریائی زبان سمجھتے ہیں اور پشتونوں کو آریائی نسل تصور کرتے ہیں وہ بھی اپنے دعوے کی بنیاد پشتو اور آریائی زبانوں کے مشترک الفاظ پر رکھتے ہیں ۔اس نظریے کی بنیاد پشتو زبان کی لسانی ،لغوی ،اور تاریخی تحقیق پر مبنی ہے ۔اس کے بنیادی ماخذ رگ وید اور اوستا کی شہادتیں ہیں ۔اس نظریے کا آغاز انیسویں صدی عیسوی کے شروع میں اس وقت ہوا جب یورپی مستشرقین نے آریائی زبانوں کے آغاز و ارتقا اور باہمی روابط پر علمی اور لسانی بنیادوں پر کام شروع کیا ۔ان مستشرقین اور ماہر ین السنہ میں پروفیسر کلپرتھ ،پروفیسر ڈرون اور مسٹر بیلیو نے پشتو زبان پر خصوصی توجہ دی اور اس زبان کی ساخت ،الفاظ ،کلمات ،اور صرف ونحو پر علمی اور تحقیقی کام کا آغاز کیا ۔پشتو زبان کے آغاز و ارتقا کے ضمن میں مستشرقین اور دیگر ماہرین السنہ نے جدید علمی اور لسانی تحقیقات کی روشنی میں جو حتمی نتائج اخذ کئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ پشتون قوم آریائی اقوام میں سے ہے ۔تمام آریائی اقوام زمانہ قدیم میں ایک جگہ پر رہائش پزیر تھیں اور یہ لوگ ایک ...

حمزہ شیواری کا خط بنام سید انیس جیلانی

 لنڈیکوتل  67۔12۔28                            پیارے مجذوب!                         سلام مسنون ۔ابھی رئیس کو بھی خط لکھا ہے ۔لنڈیکوتل میں کل چوبیس گھنٹے کی وہ طوفانی برف باری ہوئی کہ آج کچھ مطلع صاف ہوتے ہی پشاور بھاگ آیا ہوں ۔میں نے رئیس کو تمام کیفیت لکھ دی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ عید کے تیسرے یا چوتھے دن کراچی روانہ ہو جاؤں ۔حج کا کام تو نہ ہوسکا ۔لاٹری میں میرا نام آیا ہی نہیں ۔اب میرا ارادہ ہے کہ آپ اور رئیس صاحب کا ہی طواف کروں کیونکہ میرا ارادہ حج صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کی زیارت کے لئے تھا ۔ویسے میں صاحب نصاب نہیں ہوں تو تو اب آپ دونوں کا طواف ہی کافی ہوگا تاکہ حسنی ع حسینی ع ہر دو سادات کے طواف کا شرف حاصل کروں اور اس طرح دل بے چین کو کچھ تسلی دے دوں ۔اگر آپ کراچی تشریف لائے تو کرم فرمائی ہوگی چاہیئے تو یہ تھا کہ طواف کے لئے میں خود حاضر ہوتا مگر کیا کیا جائے مجبوری ہے اور آپ کا تو ویسے بھی کراچی میں کچھ نہ کچھ کام ہوا ...

حمزہ شینواری کا خط بنام سید انیس جیلانی

 لنڈیکوتل  9.6.73۔                  پیارے مجذوب! 4 مئی کو براستہ قندھار کوئٹہ روانہ ہوا تھا اور 24 جون کو لنڈیکوتل واپس آگیا ہوں ،شاید کابل سے لکھا ہوا میرا خط آپ کو مل گیا ہو یہاں آکر ڈاک دیکھتے آپ کا مفصل خط بھی نظر سے گزرا۔ ولی خان سے متعلق آپ کے خیالات صحیح نہیں ہیں میرے خیال میں آپ کے ذہین پر " میر صاحب" کا سایہ پڑ گیا ہے ۔اس خاندان کو انگریزوں نے اس قدر بدنام کرادیا ہے کہ اب کسی طور بھی اس کا ازالہ نہیں ہوسکتا اور میں بھی خان عبد الغفار خان کا مخالف رہا ہوں ۔میں پشاور شہر کے ڈبگری وارڈ کا صدر مسلم لیگ تھا اور میں نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا ۔اسلام کا نام جو لیا جارہاتھا اور پختون اسلام کے نام پر سوچتے سمجھتے ہوئےبھی  دھوکا کھا جاتا ہے پاکستان بن جانے کے بعد وہی مثل صادق آگئی کہ " کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا " اسلام کے نام پر پاکستان بنایا گیا اور انگریز کے پھٹو سوچی سمجھی سازش کے تحت برسر اقتدار آتے رہے اور جنگلی چوہوں کی طرح اندر ہی اندر شجر اسلام کی خبریں کترتے رہے اور یہی خان عبد الغفار خان بتایا کرتے تھے کہ ان ل...

حمزہ شینواری کا خط بنام سید انیس جیلانی

 لنڈیکوتل  9.6.73۔    پیارے مجذوب شکر ہے،آپ کا خط ملا ،کل ہی رائس صاحب کو لکھا تھا کہ مجذوب کا خط نہیں آرہا ،خدا کرے کوئی تکلیف تو نہیں انہیں ۔ بھائی میرا سفرنامہ حج طاہر بخاری نے ترجمہ کرنا شروع کیا تھا مگر ابھی تک اس میں معتدبہ کام نہ کرسکا میں خود کرتا تو اب کبھی کا ختم ہو جاتا ۔ ہاں آپ ہمیشہ یہی لکھا کرتے ہیں کہ میں بابا خان اور ولی خان سے مل کر انہیں رائے دوں کہ وہ بھٹو صاحب سے مصالحت کرلیں ،سو یہ بڑی بات ہوگی مگر اب معاملہ بہت دور جا چکا ہے اب تو متحدہ محاذ کے لیڈروں پر بندوقوں پستولوں کے علاوہ بم بھی پھینکیں جارہے ہیں آپ کا حکم سرآنکھوں پر میں باچا خان اور ولی خان سے مل کر کہوں گا مگر آپ بھی ایک کام کیجئے اور وہ یہ کہ آپ جماعت اسلامی ،پی ڈی پی ،تحریک استقلال اور متحدہ مسلم لیگ کے لیڈروں سے استدعا کریں کہ وہ صدر بھٹو سے مصالحت کریں کیا خیال ہے ؟  عجیب معاملہ ہے کہ آپ جیسے معاملہ فہم بھی آج تک فرنگی کے اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہیں ،آپ کیا بلکہ تقریباً آدھا پاکستان کہ غفار خان اور ولی خان ہندؤں کے ایجنٹ ہیں اور وہ پاکستان کو ختم کرادینا چاہتے ہیں لیکن اب جب کہ ...

خوشحال خان خٹک کون تھا

 خوشحال خان خٹک خوشحال خان خٹک پشتو زبان کے ایک نامور اور ممتاز شاعر ہیں ۔ان کا زمانہ شاعری 1613 سے 1679 تک کے عرصے پر محیط ہے ۔خوشحال خان نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر بھی لکھی ان کی نظم و نثر سے اندازہ ہوتا ہے کہ خوشحال خان کو عربی ،فارسی ،اور پشتو تینوں زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا ۔ایک شاعر اور نثر نگار کے علاوہ خوشحال خان ایک حکیم ،ایک معلم اخلاق اور ایک سپاہی بھی تھے ۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو بیک وقت گوناگوں اوصاف سے نوازا تھا ۔خوشحال خان خٹک نے پشتو ادب کو بہت کچھ دیا۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 360 کتابیں کیں مگر زمانے کے ہاتھوں تلف ہو جانے کے باعث بہت کم کتابیں ہم تک پہنچی ہیں ۔ایک ضخیم دیوان ،بازنامہ ،مثنوی ،فضل نامہ ،مثنوی ،طب نامہ ،مثنوی ،سوات نامہ ،مثنوی فراق نامہ ،دستار نامہ ،زنزیرے ( پشتو شارٹ ہینڈ ) اور مناظرہ سیف وقلم وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں ۔ مثنوی باز نامہ میں بازوں کے پالنے کے طریقے ان کی اقسام اور ان کی مختلف بیماریوں اور علاج کا ذکر ہے ۔فضل نامہ میں ارکان خمسہ اور عبادت کا ذکر ہے ۔طب نامہ میں دیسی علاج کے نسخے ہیں ۔سوات نامہ ،سوات کے جغرافیائی ،تمدنی اور سماجی...

حمزہ شینواری کا خط بنام سید انیس جیلانی

 لنڈیکوتل                                                                      8.10.77                                  پیارے مجذوب!           خط ملا، معاف کیجئے وہی بد ہضمی اور پچس کی شکایت رہا ہے میں خود بھی محسوس کررہا تھا اور نادم تھا کہ آپ کو اتنے دنوں تک منتظر رکھا ،بہرحال ۔امید ہے کہ اب انتخابات کے التواء کے بعد آپ کی سعی و کوشش معطل ہوگی اور آرام سے ہوں گے خدا کا شکر ہے کہ ہم قبائلی اس آفت سے امن میں ہیں ۔جنرل صاحب ایک سچے مسلمان۔معلوم ہوتے ہیں میرا خیال ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے زمانے میں ہی اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔اور یہی ایک راستہ پاکستان کے تحفظ اور سالمیت کا ہے اسلامی نظام کے نفوذ کے بعد قومی اور علاقائی تعصب کا یکسر خاتمہ ہوگا کیونکہ اسلام کس قوم کی حق تلفی نہیں کرتا بلکہ اپنے اجتما...

خاکہ نگاری

 خاکہ  خاکہ کے لغوی معنی " ابتدائی نقشہ ،اور چربہ کے ہیں ۔خاکہ کھینچنا کے معنی ہیں کسی کی تصویر لفظوں میں ادا کر دینا ۔ادبی اصطلاح میں خاکہ وہ تحریر یا مضمون ہے جو کسی شخصیت کا بھرپور تاثر پیش کرے ۔اسے کسی شخص کی قلمی تصویر بھی کہہ سکتے ہیں ۔ خاکہ کو شخصی مرقع یا شخصیہ بھی کہتے ہیں اور خاکہ نویسی کو شخصیت نگاری کا نام  بھی دیا جاتا ہے ۔ ایک اچھے خاکے میں ہم کسی شخص کے بنیادی مزاج ،اس کی افتادہ طبع ،انداز فکروعمل اور اس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے روشناس ہوتے ہیں ۔اختصار و جامعیت خاکہ نگاری کا بنیادی وصف ہے ۔خاکے میں شخصیت کے تفصیلی حالات و واقعات یا اس کے کارناموں اور فتوحات وغیرہ کا ذکر نہیں کیا جاتا ،بلکہ کسی واقعے کے مختصر تذکرے سے شخصیت کا کوئی خاص پہلو قارئین کے سامنے لایا جاتا ہے۔خاکے میں ہم  کسی شخص کی شخصی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی کمزوریوں سے بھی واقف ہوتے ہیں ۔مگر خاکہ نویسی قصیدہ یا ہجو گوئی سے قطعی مختلف چیز ہے ۔خاکے کا انداز قدرے غیر رسمی ہوتا ہے ۔خاکہ نویس کا بے ساختہ اور شگفتہ قلم نکتہ آفرینیاں کرتا چلا جاتا ہے ۔وہ شخصیت کی ہلکی ہلکی چٹکیاں بھی لیتا ہے...

آپ بیتی کیا ہوتی ہے ؟

 آپ بیتی  اپنی زندگی کے احوال وواقعات کا بیان " آپ بیتی کہلاتا ہے ۔اسے خود نوشت بھی کہہ سکتے ہیں ۔آپ بیتی محض احوال وواقعات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات لکھنے والے کی داخلی کیفیتوں ،دلی ،احساس ،شخصی اور عملی تجربوں ،زندگی کے جذباتی پہلوؤں اور بحثیت مجموعی زندگی کے بارے میں اس کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرتی ہے ۔مصنف بعض اوقات ان خارجی ،سیاسی ،معاشی اور معاشرتی عوامل کا بھی ذکر کرتا ہے ،جو کبھی اس پر اثر انداز ہوئے یا جنھوں نے اس کی زندگی کا ایک خاص رخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔۔گر ضروری نہیں کہ ہر آپ بیتی میں یہ تمام عناصر یکساں اور لازمی طور پر موجود ہوں ۔لکھنے والا اپنے مزاج ،افتادطبع ،اور انداز فکر ونظر کے مطابق آپ بیتی میں بعض پہلوؤں کا نمایاں کرتا اور ابھارتا ہے اور بعض پہلوؤں کو اختصار کے ساتھ سرسری انداز میں بیان کرتا ہے ۔ڈاکٹر سید عبداللہ کے الفاظ میں " سب سے اچھی آپ بیتی وہ ہوتی ہے جو کسی بڑے دعوے کے بغیر بے تکلف اور سادہ احوال زندگی پر مشتمل ہو ۔ آپ بیتی مختلف مقاصد کے تحت لکھی جاتی ہے ۔بیشتر لکھنے والوں کا مقصد اصلاحی اور اخلاقی ہوتا ہے ۔مصنف چاہتا ہے کہ...

ترکیب بند نظم اور ترجیح بند نظم میں کیا فرق ہے ؟

 ترکیب بند  ترکیب بند کوئی علیحدہ اور مستقل صنف سخن نہیں بلکہ جو نظم متعدد بندوں پر مشتمل ہو ،ترکیب بند نظم کہلائے گی ،جس نظم کا ایک بند پانچ مصرعوں کا ہو وہ مخمس ترکیب بند نظم ہوگی ،جس کا ایک بند چھ مصرعوں پر مشتمل ہو ،اسے مسدس ترکیب بند نظم کہیں گے وعلی ہذا القیاس ۔ بعض ترکیب بند نظموں کے بند پانچ یا چھ سے زیادہ مصرعوں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔یہ بند کبھی مثنوی کی ہئیت میں ہوتے ہیں اور کبھی غزل کی ہئیت میں ۔البتہ دونوں صورتوں میں بند کے آخری شعر کے دونوں مصرعے آپس میں ہم قافیہ وہم ردیف ہی ہوتے ہیں ۔ ترکیب بند کی دو شکلیں ہیں ۔ ایک وہ جس میں ہر بند کی تعداد اشعار برابر ہو ۔جیسے اقبال کی نظم " ذوق وشوق" کا ہر چھ شعروں کا ہے اور " مسجد قرطبہ " کا ہر بند آٹھ شعروں کا ہے ۔ دوسری وہ جس کے ہر بند میں اشعار کم وبیش ہوتے ہیں ۔جیسے اقبال کی نظمیں " شمع و ساغر " اور حضرراہ " وغیرہ ۔ تر جیح بند  ترجیح بند اور ترکیب بند میں صرف اتنا فرق ہے کہ ترکیب بند میں ہر بند کا آخری شعر مختلف ہوتا ہے ۔مگر ترجیح بند میں ہر بند کے آخر میں ایک ہی شعر ( یا مصرعہ ) بار بار لایا جاتا ہ...

سوانح عمری

 سوانح عمری  سوانح عمری ،دراصل مقالہ ہی کی ایک شکل ہے۔یہ کوئی مستقل اور الگ صنف نثر نہیں ،باعتبارموضوع مقالہ کی ایک قسم ہے ۔  سا  سوانح عمری وہ صنف ادب ہے جس میں کسی فرد کی پیدائش سے لے کر وفات تک کے تمام واقعات ،اس کی ذہنی وعقلی نشوونما کے مختلف مراحل اور اس کے شخصی کارناموں وغیرہ کو بہ تفصیل بیان کیا جائے۔ ضروری نہیں کہ یہ فرد،کوئی پیغمبر ،نامور مصلح ،اولوالعزم جنگجو ،باجرت حکمران ،معروف ادیب یا غیر معمولی شہرت کا مالک سیاست دان ہو ۔ایک غیر معروف ،معمولی اور گم نام انسان بھی سوانح نگاری کا موضوع بن سکتا ہے کیونکہ چھوٹے سے چھوٹے انسان کی صحیح سیرت کشی اور اس کے سفرحیات کی عکاسی بڑے سے بڑے انسان کی دلچسپی ہو سکتی ہے ۔  بہترین سوانح عمری ایک فنی اور تخلیقی کارنامہ ہوتی ہے ۔ایسی سوانح عمری لکھنا آسان نہیں ۔ سوانح نگار کو بڑی مشکلات اور آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔کسی انسان کی صحیح مرقع کشی کے لیے سوانح نگار کو بیک وقت محقیق ،مورخ ،مبصر ،ماہر نفسیات اور ادیب ہونا چاہیے ۔" چونکہ ہر سوانح نگار میں ان اوصاف کا ہونا ضروری نہیں۔اس لیے دنیائے ادب میں اعلی درجے کی سوا...

مقالہ کیا ہوتا ہے ؟

 مقالہ مقالہ کے لغوی معنی ہیں " بات یا گفتگو" یعنی جو کچھ کہا جائے " اصلاح میں کسی خاص موضوع پر علمی وتحقیقی انداز میں تحریری اظہار خیال کو مقالہ کہیں گے ۔مضمون اور مقالہ درحقیقت ایک صنف کے دو روپ ہیں ۔دونوں کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ مضمون مختصر ہوتا ہے ۔اس کا انداز تاثراتی اور مفہوم سادہ ہوتا ہے ،جبکہ مقالہ نسبتا طویل اور عالمانہ ہوتا ہے ۔مقالے میں مضمون کی نسبت زیادہ گہرائی ہوتی ہیں ۔اور زیادہ ٹھوس ہوتا ہے ۔دراصل مضموں اور مقالے میں اختصار یا طوالت کا فرق بھی اہم نہیں ۔اصل اہمیت دونوں کے درمیان اختلاف مزاج کی ہے ۔بایں ہمہ عام طور پر دونوں طرح نثرپاورں کو گڈمڈ کردیا جاتاہے ۔دنیا کے ہر موضوع پر مضمون یا مقالہ لکھا جاتا ہے ۔اسی اعتبار سے مقالہ نویسی کی کئی اقسام ہیں ۔بعض مضامین ادبی تخلیق و تنقید سے متعلق ہوتے ہیں۔بعض لسانیات اور مختلف النوع علمی مسائل سے ۔ علما مذہب نے مذہبی موضوعات پر اعلی پائے کے تحقیقی مقالے لکھے ہیں ۔ان میں مولانا شبلی نعمانی ،سید سلمان ندوی ،ابوالکلام آزاد ،عبد الماجد دریابادی ،سید ابوعلی مودودی ،مناظر احسن گیلانی ،مولانا ابوالحسن علی ندوی ،مولانا ...

مضمون

 مضمون کسی متعین موضوع پر اپنے خیالات اور جذبات واحساسات کا تحریری اظہار کہلاتا ہے ۔مضمون کے لیے موضوع کی کوئی قید نہیں ۔دنیا کے ہر ۔معاملے،مسلے ،یا موضوع پر مضمون لکھا جاسکتا ہے ۔مضمون کی بالعموم ایک خاص ترتیب ہوتی ہے ۔سب سے پہلے زیر بحث مسلے کا تعارف کرایا جاتا ہے۔ پھر اس کی حمایت یا مخالفت میں دلائل دیے جاتے ہیں اور آخر میں نتیجہ پیش کیاجاتا ہے ۔بعض مضامین تاثراتی نوعیت کے ہوتے ہیں ان میں ایسی ترتیب اور دلائل کی ضرورت نہیں ہوتی ۔البتہ ہر مضمون کے لیے نظم وضبط ،تو توازن اور تناسب ضروری ہے ۔ اردو میں مضمون نویسی کا باقاعدہ آغاز سرسید احمد خان سے ہوا ۔انھوں نے مذہبی ،سیاسی ،ادبی،علمی ،معاشرتی ،تاریخی ،فلسفیانہ اور دیگر موضوعات پر بکثرت مضامین لکھ کر ہمعصر ادیبوں کو ایک نیا راستہ دکھایا ۔ان کے رسالے " تہذیب الاخلاق" نے مضمون نویسی کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ۔سرسید احمد خان کے رفقا میں حالی ،شبلی ،محسن الملک ،نزیر احمد ،وقار الملک ،چراغ علی وغیرہ نے معیاری مضامین کا ایک وسیع ذخیرہ چھوڑا ہے ۔سرسید نے اپنے مضامین کے ذریعے سادہ نویسی کی جو روایت قائم کی ،اس پر چلتے ہوئے...