Posts

Showing posts from March, 2024

ڈاکٹر وزیر آغا کون تھا ؟

 ڈاکٹر وزیر آغا وزیر کوٹ ضلع سرگودھا میں 18 مئی 1922 ء کو پیدا ہوئے ۔آپ کے آباؤاجداد کا تعلق ایران سے ہے آپ کے پردادا کاروبار کے سلسلے میں افغانستان آگئے ۔بعدازاں برطانوی دور حکومت میں لاہور اور پھر سرگودھا منتقل ہوگئے ۔ آپ نے 1943 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ۔اے اکنامکس کیا۔1956 میں " اردو ادب میں طنز ومزاح" کے موضوع پر مقالہ تحریر کیا ۔جس پر پنجاب یونیورسٹی سے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی ۔ تصانیف تحقیق وتنقید ،اردو شاعری کا مزاج ،نظم جدید کی کروٹیں ،تنقید واحتساب ،تخلیقی عمل نئے مقالات ،نئے تناظر ،تصورات عشق وخرد ( اقبال کی نظر میں ) انشائیہ کے خدوخال ساختیات اور سائنس ،غالب کا ذوق تماشا ۔ شاعری : دن کا زردپہاڑ ،ادھی صدی کے سائے ،شام اور سائے ،نردبان ۔ انشائیہ: خیال پارے ،چوری سے یاری تک ،دوسرا کنارہ ،سمندر اگر میرے اندر گرے ،پگڑنڈی سے روڈ رولر تک ( انشائیوں کا کلیات ) ۔ خاکے شام دوستان آباد  ادارت 1940 میں ماہنامہ " ادبی دنیا " میں شریک ہوئے ۔ 1956 میں اپنا رسالہ اور اق جاری کیا جو تاحال شائع ہو رہا ہے  ۔

ساغر صدیقی نعت

 نہ ہوتا در محمد کا تو دیوانے کہاں جاتے خدا سے اپنے دل کی بات منوانے کہاں جاتے جنہیں عشق محمد نے کیا ادراک سے بالا  حقیقت ان تمناؤں کی سمجھانے کہاں جاتے خدا کا شکر ہے یہ حجرا اسود تک رسائی ہے  جنہیں کعبے سے نسبت ہے وہ بتخانے کہاں جاتے اگر آتی نہ خوشبوئے مدینہ میری آنکھوں سے  جو مرتے ہیں نہ جلتے ہیں وہ پروانے کہاں جاتے  سمٹ آئے مری آنکھوں میں حسن زندگی بن کر  شراب درد سے مخمور نذرانے کہاں جاتے چلو اچھا ہوا ہے نعت ساغر کام آئی ہے  غلامان نبی محشر میں پہچانے کہاں جاتے  

استعاره

 استعارہ جب کسی لفظ کو حقیقی معنوں کی بجائے غیر وضعی معنوں میں استعمال کریں اور حقیقی ومجازی معنوں میں تشبیہ کا علاقہ پایا جائے تو اسے استعارہ کہتے ہیں ۔ استعارہ میں ارکان تشبیہ کے نام بدل جاتے ہیں ۔اس لئے ان کو جاننا اور یاد رکھنا ضروری ہے ۔ مشبہ کو = مستعارلہ ،کہتے ہیں ، مشبہ بہ کو = مستعار منہ کہتے ہیں وجہ شبہ کو = وجہ جامع کہتے ہیں ۔ مستعار منہ کےلئے جو لفظ لایا جاتا ہے مستعار کہلاتا ہے ۔مثلا جب ہم شیر کا لفظ کسی بہادر آدمی کے لئے استعمال کرتے ہیں تو مردشجاع کی ذات مستعارلہ ہے ۔شیر مستعار منہ ہے ،شجاعت وجہ جامع ہے شجاع کا لفظ مستعار ہے ۔ جیسے مشبہ اور مشبہ بہ کو طرفین تشبیہ کہا جاتا ہے ۔اسی طرح مستعارلہ اور مستعار کو طرفین استعار کہتے ہیں ۔استعارہ میں مشبہ کی ذات کو عین مشبہ بہ بتایا جاتا ہے ( یا اس کے برعکس یعنی مشبہ بہ کو عین مشبہ ) اسلئے عموماً استعارہ میں مشبہ اور مشبہ بہ میں سے صرف ایک کا ذکر کرتے ہیں اور جو محذوف ہوتا ہے اس کے لوازم اور مناسب لائے جاتے ہیں تاکہ استعارہ مکمل ہو جائے ۔اسی لئے استعارہ کی اصلی خوبی یہ ہوتی ہے کہ طرفین استعار میں کامل قسم کی تشبیہ پائی جائے او...

تشبیہ

تشبیہ  تشبیہ کے معنی یہ ہیں کہ ایک چیز کسی خاص لحاظ سے کسی دوسری چیز کے مانند ظاہر کیا جائے ۔جیسے  کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا  تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا     (   انیس )  یہاں اوس کے قطروں کو آب وتاب کی وجہ سے موتیوں سے تشبیہ دی گئی ہے ۔کسی تشبیہ میں پانچ چیزیں ہوتی ہیں ۔ مشبہ : وہ چیز جس کو تشبیہ دی جائے جیسے پہلی مثال میں اوس کے قطرے ۔ مشبہ بہ : وہ چیز جس سے تشبیہہ دی جائے ۔جیسے یہاں موتی ۔ حرف تشبیہ : وہ حرف ہے جو تشبیہ دینے کے لئے لایا جائے ۔جیسے مانند ،مثل ،چوں ،جیسا وغیرہ ( یہاں حرف تشبیہ محذوف ہے ) ۔ وجہ تشبیہ: وہ بات اور وہ معنی جو مشبہ اور مشبہ بہ میں مشترک ہوں ۔جیسے یہاں چمک دمک اور آب و تاب کہ یہ موتیوں میں بھی پائی جاتی ہے اور اوس کے قطروں میں بھی ( اس کو وجہ شبہ بھی کہتے ہیں )  غرض تشبیہ : وہ مقصد جس کےلئے کسی چیز کو تشبیہ دی جاتی ہے جیسے یہاں اوس کے قطروں کی  خوشنمائی اور دلفریبی ظاہر کرنے سے غرض ہے ۔( اسے غرض شبہ بھی کہتے ہیں ) ان پانچوں کو ارکان تشبیہ کہتے ہیں اور مشبہ اور مشبہ بہ طرفین تشبیہ ( یا اطراف...

ساغر صدیقی

Image
 ساغر صديقي اے حسن لالہ فام ! ذرا آنکھ تو ملا  خالی پڑے ہیں جام ! ذرا آنکھ تو ملا کہتے ہیں آنکھ آنکھ سے ملنا ہے بندگی  دنیا کے چھوڑ کام ! ذرا آنکھ تو ملا کیا وہ نہ آج آئیں گے تاروں کے ساتھ ساتھ تنہائیوں کی شام ! ذرا آنکھ تو ملا یہ جام , یہ سبو یہ تصور کی چاندنی  ساقی کہاں مدام ! ذرا آنکھ تو ملا ساقی مجھے بھی چاہیے اک جام آرزو کتنے لگیں گے دام ! ذرا آنکھ تو ملا پامال ہو نہ جائے ستاروں کی آبرو  اے میرے خوش خرام! ذرا آنکھ تو ملا ہیں راہ کہکشاں میں ازل سے کھڑے ہوئے  ساغر ترے غلام! ذرا آنکھ تو ملا 

کلام غالب

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا دل جگر تشنۂ فریاد آیا دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز پھر ترا وقت سفر یاد آیا سادگی ہائے تمنا،یعنی  پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا عذر واماندگی ،اے حسرت دل  نالہ کرتا تھا،جگر یاد آیا زندگی یوں ہی گزر ہی جاتی  کیوں ترا راہ گزر یاد آیا کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی ! گھر ترا خلد میں گر یاد آیا آہ ،وہ جرآت فریاد کہاں  دل سے تنگ آکے ،جگر یاد آیا پھر ترے کوچے کو جاتا ہے خیال دل گم گشتہ ،مگر یاد آیا کوئی ویرانی سی ویرانی ہے !  دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا میں نے مجنون پہ لڑکپن میں اسد  سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا 
                                                                   لنڈیکوتل                                                                   16.4.68۔                                             برادر عزیز! سلام مسنون ۔رئیس صاحب کے خطوط کے متعلق آپ کا مطالبہ روزبہ روز پکڑتا جا رہا ہے اس لئے بقیہ خطوط بھی روانہ کررہاہوں اور اب میرے پاس ان کا ایک خط بھی مظاہر باقی نہیں رہا ہوسکتا ہے کہ کتابوں کے اندر ایک آدھا رہ گیا ہو لیکن جہاں تک مجھے دستیاب ہوسکے بھیج رہا ہوں ۔ آپ کی دنیاداری مجھے پسند ہے کچھ نہ کچھ ادب کی خدمت تو کررہے ہیں اس لئے آپ دنیادار پہ...
                                                                    لنڈیکوتل                                                                     7.2.68۔                                         میرے مجذوب   خدا آپ کو اطمینان قلب فرمائے میرے مجذوب آپ نے حکیم صاحب کے متعلق جو کچھ لکھا ہے مجھے اس سے اتفاق ہے اور میں نے رئیس کو لکھا ہے کہ حکیم صاحب ¹جیسا اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں ویسے نہیں ۔وہ مجھے مطلق پسند نہ آئے اور یہ بھی لکھا ہے کہ آپ اتنے بڑے آدمی ہو کر ایک شراب خانہ خراب سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتے ؟ اگر آپ نے اسے ترک نہ کیا تو آپ کی صحت ہرگز ...
                                                           مکہ مکرمہ۔                                                                              15.2.69                                                                      پیارے مجذوب!    اسلام وعلیکم ۔ہم کل بیت اللہ شریف پہنچ گئے ۔ہم 21 جنوری کو کابل سے روانہ ہوئے تھے اور 14 فروری کو پہنچ گئے ،گویا سولہ دن سفر میں رہے ۔بات یہ ہوئی کہ ایران میں برف کا زبردست طوفان تھا اور ان کا تکالیف کا میں تصور بھی نہیں کرسکت...

پطرس بخاری

 پروفیسر احمد شاہ بخاری ( پطرس)  پروفیسر احمد شاہ بخاری آج ہم میں سے نہیں مگر ان کی باتوں اور تحریروں سے بے شمار لوگوں کے دل خوش ہوئے اور ہوتے رہیں گے ۔انہوں نے اردو میں سب سے کم سرمایہ چھوڑا ہے مگر اونچا مقام پایا ۔ظرافت نگاری میں پطرس کا ہمسفر کوئی نہیں ۔ان کی ظرافت بندھے ٹکے موضوعات ،روائتی کردار اور لفظی ہیر پھر سے بے نیاز تھی ۔ہر جگہ ہر بات میں انہوں نے خوش طبعی اور زندہ دلی کا پہلو نکالا ہے ۔بخاری کی ظرافت مفرد ہوتی ہے مرکب نہیں ۔ان ظرافت کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مرثیوں سے دے سکتے ہیں ۔جس طرح ان بے نظیر فن کاروں نے ماجزائے حسن و عشق کا قفیۂ برسرزمین ہی رکھا ۔مزرعہ آخرت بنانے کی کوشش نہیں کی ۔اسی طرح بخاری نے ظرافت کو زمینی اور زمانی ہی رکھا ۔لامکانی بنانے کے فکر میں نہیں پڑے ۔مزے کی باتیں مزے سے کہتے ہیں ۔کسی کو انتظار اور سوچ میں پڑنے کی زحمت میں مبتلا نہیں کرتے وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں لفظوں اور چٹکوں کے پیوند نہیں لاتے ۔ بخاری کی علمی شہرت ،بے اختیار متوجہ کرنے والی شخصیت حسین و ذہین خدوخال،سجل اور ستھرا لباس ،بے تصنع خرام وقیام ،ہر شخص سے اس کے منا...
                                                                  لنڈیکوتل                                                                         29.3.71                                                         پیارے مجذوب                میں چھ دن کے بعد کل پشاور سے ہیاں آیا ہوں ،کلی ہی میں آپ کا خط بھی دے دیا گیا،اب سیاسیات کی کیفیت خوب روشن ہو گئی ہے اس کے متعلق کیا لکھا جائے ۔   الحمد اللہ کہ ہم قبائل لوگ امن وامان سے رہ رہے ہیں ،ہمارے نام نہاد لیڈر...

حمزہ شینواری

 یہ ایک حقیقت ہے کہ حمزہ شینواری پشتو زبان کے بہت بڑے شاعر ہیں ۔انہوں نے پشتو شاعری بالخصوص پشتو غزل میں وہ مقام حاصل کیا ہے جو قیامت تک ان کوامر کرنے کےلئے کافی ہے ،پشتو میں ان کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے پشتو کے ایک بڑے شاعر اور مفکر ملک الشعراء سمندر خان سمندر نے ایک مشاعرے کے دوران ان کو " غزل کا بادشاہ" کا خطاب دیا اور پھر اس کے بعد " بابائے غزل " اور شہنشائے غزل " کے ناموں سے بھی مشہور ہوئے ۔مگرحیرت کی بات یہ ہے کہ پشتو شاعری میں شہرت کے بام کو چھونے والے اس عظیم شاعر نے اپنی شاعری کا آغاز اردو سے کیا ۔بقول ان کے میں نے پانچویں جماعت میں شاعری شروع کی ،چونکہ ذریعہ تعلیم اردو تھی اس لئے اردو میں لکھنے لگا ،مجھے افسوس ہے کہ وہ اشعار مجھے یاد نہیں رہے کیونکہ میں انہیں محفوظ نہیں رکھا کرتا تھا ۔اس کی تحریک شاید ہمارے ایک استاد مرزا عباس علی بیک صاحب کی شاعری سے ہوئی ۔ پھر اپنی اس اردو شاعری کی ابتدا کے بارے میں آگے چل کر کچھ اس طرح بتاتے ہیں۔" جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت اسلامیہ کالج کے ایک طالب علم شہزاد سکندر ہوا کرتے تھے ،وہ بخارا...
                                                           لنڈیکوتل                                                                                                                   4.12.68                                بردار عزیز                   سلام مسنون ۔آپ کا خط ملا ۔انیس شاہ صاحب کے ساتھ خوب  وقت گزرا ،میرا تحفہ ،بھئی برگ سبز درویش تھا ۔ دوستی میں صرف اخلاص کی ضرورت ہوا کرتی ہے ۔گویہ خدا ہی جانتا ہے کہ مخلص دوست ک...

علی گڑھ تحریک اور تنقید

علی گڑھ تحریک اور تنقید نے زندگی کے جمال کو اجاگر کرنے کے بجائے مادی قدروں کو اہمیت دی ۔چنانچہ ادب کو بے غرضانہ مسرت کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے ایک ایسا مفید وسیلہ قرار دیا گیا جو مادی زندگی کو بدلنے اور اسےچم مائل بہ ارتقاء رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔ادب کایہ افادی پہلو بیسویں صدی میں ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوا ۔تاہم یہ اعزاز علی گڑھ تحریک کو حاصل کے کہ اردو زبان کے بالکل ابتدائی دور میں ہی اس کی عملی حیثیت کو اس تحریک نے قبول کیا اور ادب کو عین زندگی بنا دیا ۔اس اعتبار سے بقول ڈاکٹر سید عبداللہ سر سید احمد خان سب سے پہلے ترقی پسند ادیب اور نقاد تھے ۔اول الزکر حیثیت سے سر سید احمد خان ادب کو تنقید حیات کا فریضہ سر انجام دینے پر آمادہ کیا اور موخرالزکر حیثیت سے ادب کی تنقید کے موقر اصول وضع کرکے اپنے رفقاء کو ان پر عمل کرنے کی تلقین کی ۔اگر چہ سرسید احمد خان نے خود فن تنقید کی کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی لیکن ان کے خیالات نے تنقیدی رجحانات پر بڑا اثر ڈالا ۔ان کا یہ بنیادی تصورکہ اعلی تحریر وہی ہے جس میں سچائی ہو ،جو دل سے نکلے اور دل پر اثر کرے بعد میں آنے والے تمام تنقیدی ت...