Posts

Showing posts from January, 2024

افسانہ کیا ہوتا ہے ؟

 Fiction  افسانہ عام طور پر فرضی کہانی کو افسانہ کہا جاتا ہے لیکن ادبی اصطلاح میں افسانہ وہ مختصر کہانی یا فکری داستان ہے جس میں کسی ایک واقعہ اور کسی ایک کردار پر روشنی ڈالی گئی ہو اور جس کے پڑھنے میں آدھ گھنٹہ تک وقت لگے ۔افسانہ کہانی کی وہ مختصر شکل ہے جس کے لیے انگریزی میں short story کا نام استعمال ہوتا ہے یہ داستان اور ناول کی ارتقائی اور ترقی یافتہ صورت ہے ،افسانےکی جامع تعریف آسان نہیں کیونکہ اس کی بےشمار تعریفیں کی گئی ہیں ۔فنی لحاظ سے ایک افسانے کے لیے ضروری ہےکہ وہ وحدت تاثر کا حامل ہو ۔وحدت تاثر پیدا کرنے کے لیے ایک معیاری افسانے میں صرف ایک مقصد پر زور دیا جاتا ہے ۔اگر مقاصد ایک سے زیادہ ہوں تو افسانے میں بہت سی فنی خرابیاں پیدا ہو جاتی  ورنہ قاری افسانے میں دلچسپی محسوس نہیں کرتا ۔ اختصار افسانے کی بنیادی خوبی ہے بعض نقادوں نے کہا ہے کہ مختصر افسانہ وہ ہے جو نصف گھنٹے میں پڑھا جاسکے ۔بعض کا خیال ہے کہ جو کہانی ایک ہی نشست میں پڑھی جاسکے ،اسے افسانہ کہ سکتے ہیں ۔درحقیقت افسانے پر وقت کی قید نہیں لگائی جاسکتی ۔البتہ افسانہ نگار کو غیر ضروری تفصیلات سے اجتناب ک...

ڈرامہ کیا ہوتا ہے ؟

 ڈرامہ  ڈرامے کا تصور قدیم یونان سے وابستہ ہے ،ڈراما کا لفظ یونانی زبان سے بنا ہے ،جس کے معنی تمثیل ،ٹانگ یا سوانگ کے ہیں ۔ان سب الفاظ کا مفہوم ہے " کچھ کرکے دکھانا " ۔ڈرامے سے انسان کی دلچسپی فطری ہے۔ ڈرامے کی جامع تعریف کرنا مشکل ہے ۔ایک مغربی ناقد ھڈسن کے الفاظ میں ڈراما ایک نقالی ہے جو حرکت ( عمل )اور تقریر یعنی مکالمہ کے وسیلے سے کی جاتی ہے ۔اردو میں ڈرامے کے ایک ممتاز نقاد ڈاکٹر محمد اسلم قریشی کا خیال ہے کہ ڈراما اسٹیج پر فطرت کی نقالی کا ایک ایسا فن ہے جس میں اداکاروں کے ذریعے زندگی کے غیر معمولی اور غیر متوقع حالات کے عمل میں قوت ارادی کا مظاہرہ تماشائیوں کے روبرو ایک معین وقت اور مخصوص انداز میں کیا جاتاہے ۔مختصر یو سمجھے کہ ڈراما وہ کہانی ہے جو مختلف کردار اپنی گفتگو اور اپنے عمل کے ذریعے اسٹیج پر پیش کرتے ہیں ۔ ڈرامے میں اسٹیج بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔اسٹیج کے بغیر کوئی ڈرامہ پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ڈرامہ لکھتے ہوئے اسٹیج کی ضرورتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے ،اسٹیج کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے اچھا ڈرامہ لکھنا ممکن نہیں ۔خیال رہے کہ اسٹیج ،اصل ڈرامے کا حصہ نہیں ہوتا مگر ڈر...

ناول کیا ہوتا ہے ؟

 ناول (novel) اطالوی زبان کا لفظ ہے جو انگریزی کے توسط سے اردو میں رائج ہوا ۔اس کے معنی ہیں " انوکھا ،نرالا اور عجیب " اصطلاح میں وہ قصہ یا کہانی ہے ،جس کا موضوع انسانی زندگی ہو اور ۔ناول نگار زندگی کے مختلف پہلوؤں کا مکمل اور گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد ایک خاص سلیقے اور ترتیب کے ساتھ اپنے تجربات و مشاہدات کو کہانی کی شکل میں پیش کردے ۔ناول میں حقیقت نگاری بنیادی چیز ہے ۔فرضی ،خیالی اور مافوق الفطرت باتوں سے اجتناب کیا جاتا ہے ۔دراصل ناول داستان کی ارتقائی شکل ہے ۔ فنی اعتبار سے مندرجہ ذیل عناصر یا لوازم ناول میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں ۔ 1 کہانی : ناول کے لیے بنیادی چیز کہانی ہے قصے کے بغیر ناول ،ناول کہلانے کے مستحق نہیں ۔ 2 پلاٹ : واقعات کی منطقی ترتیب کو پلاٹ کہتے ہے ۔ناول کی عمدگی کا انحصار بڑی حد تک پلاٹ پرہی ہوتا ہے ۔پلاٹ گٹھا ہوا ہی ہی ہونا چاہیے ۔ 3 کردار : کوئی بھی کہانی کرداروں کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی ۔ناول معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ۔اس لیے اس میں ہر طرح کے کرداروں کی موجودگی لازمی ہے ان کے افعال واعمال اور عمل وردعمل سے ہی ناول کی تشکیل ہوگی ۔ایک یا دو کردار نسبتا ا...

داستان کیا ہوتا ہے ؟

 داستان کہنے کی چیز کی کو کہانی کہتے ہیں ۔قصہ کے معنی بھی کہنا اور بیان کرنا کے ہیں ۔داستان کہانی کی سب سے اولین اور قدیم قسم ہے۔اصطلاح میں داستان وہ قصہ کہانی ہے جس کی بنیاد تخیل ،رومان اور مافوق الفطرت عناصر پر ہو ۔ کہانی کی قسم ہونے کے ناطے سے داستان ،لکھنے اور پڑھنے سے زیادہ کہنے اور سننے کی چیز ہے اور مافی الضمیر کا فوری اور جلد اظہار لکھنے سے زیادہ کہنے میں ہوتا ہے ۔شاید اسی لیے شررنے داستان کو فی البدہیہ تصنیف کہا ہے ۔داستان گو کا اندازہ براہ راست خطاب کا ہوتا ہے ۔مثلا وہ ہمیشہ سامعین کو " لو" تو ' وغیرہ کہہ کر مخاطب کرتا ہے ۔ ایک معیاری داستان بالعموم مندرجہ اجزا سے ترکیب پائی ہے ۔ 1  پلاٹ ہر داستان کی بنیاد کسی نہ کسی پلاٹ پر رکھی جاتی ہے اس کے بغیر داستان کا تصور بے معنی ہے ۔اردو داستانوں کے پلاٹ میں تنوع کی کمی ہوتی ہے بالعموم تمام داستانوں کے ایک جیسے پلاٹ ہوتے ہیں ۔ 2 تخیل اور رومان : ہر داستان گو سامعین کو ایک ایسی دنیائے تخیلات کی سیر کراتا ہے جو ان کےلیے ان دیکھی اور بالکل اجنبی ہوتی ہے ۔اس رومانی اور خیالی دنیا کی ہر شے انسان اور حیوان ،نباتات ،اور جمادات...

سانیٹ کیا ہوتا ہے ؟

 سانيٹ (   sonnet) سانیٹ دور جدید کی پیداوار ہے۔اسے نظم کی ایک شکل کہ سکتے ہیں۔ سانیٹ ایک طرح کی مقفی نظم ہے جس میں کل چودہ مصرعے ہوتے ہیں ۔اس میں قافیے ایک مقررہ ترتیب سے لائے جاتے ہیں ۔سانیٹ کے دو حصے ہوتے ہیں ۔پہلا مصرعہ آٹھ مصرعوں پر اور دوسرا چھ مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔سانیٹ میں کسی خیال یاجذبے کو پیش کیا جاتاہے ۔سانیٹ کسی بھی بحر اور وزن میں لکھی جاسکتی ہے ۔ دراصل سانیٹ انگریزی شاعری کی ایک قسم ہے ۔فنی لحاظ سے سائنٹ ایک مشکل صنف ہے ۔قافیوں کی خاص ترتیب کے ساتھ انتخاب الفاظ ،اختصار اور تسلسل خیال اور بیان میں ارتقاء کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔اردو میں ن ۔م راشد ،اخترشیرانی ،اور بعض دوسرے جدید شعرا نے سانیٹ کو رواج دینے کی کوشش کی ۔مگر یہ صنف اردو میں فروغ نہ پاسکی ۔ساینٹ کی ایک مثال ملاحظہ ہے بادل  چھائے ہوئے ہیں چار طرف پارہ ہائے ابر  آغوش میں لیے ہوئے دنیائے آب ورنگ  میرے لیے ہے ان کی گرج میں سرود چنگ  پیغام انسباط ہے مجھ کو صدائے ابر  اٹھی ہے ہلکے ہلکے سروں نوائے ابر  اور قطر ہائے آب بجاتے ہیں جلترنگ  گہرائیوں میں روح کی جاگی ہے ہرا...

ساغر صديقي

 صحن کعبہ بھی ہے تو صنم خانے بھی  دل کی دنیا میں گلستان بھی ہیں ویرانے بھی  لوگ کہتے ہیں اجارہ ہے ترے جلوؤں پر  اتنے ارزاں تو نہیں ہیں ترے دیوانے بھی  آتش عشق میں پتھر بھی پگھل جاتے ہیں  مجرم سوز وفا شمع بھی پروانے بھی  کچھ فسانوں میں حقیقت کی جھلک ہوتی ہے  کچھ حقیقت سے بنا لیتے ہیں افسانے بھی  میرے اشعار ہیں تصور تمنا ساغر ان کی آغوش میں ہیں درد کے افسانے بھی               انتخاب:کلیات ساغر صدیقی 

آزاد نظم کیا ہوتا ہے ؟

 آزاد نظم بے قافیہ نظم میں مصرعے یکساں ہوتے ہیں مگر آزاد نظم میں مصرعوں کا برابر ہونا ضروری نہیں ،کچھ عرصے بعد انگریزی کی آزاد نظم کی طرز پر اردو میں بھی ایسی نظمیں لکھی جانے لگیں ۔ آزاد نظم کی بنیاد ایک ہی بحر پر ہوتی ہے ،مگر بحر کے ارکان کی تقسیم شاعر کی صوابدید پر ہوتی ہے ،بعض اوقات ایک رکن دو مصرعوں میں منقسم ہو جاتا ہے کوئی چھوٹا اور بڑا ۔ازاد نظم میں بھی ہییت کے اعتبار سے مختلف تجربات کیے گئے ہیں ۔بعض شعرا آہنگ اور صوتی تاثر کا خاص خیال رکھتے ہیں اور کبھی نظم میں قافیے بھی لاتے ہیں۔ ن ۔م راشید اور تصدق حسین خالد کو اردو میں آزاد نظم کا بانی کہا جاتا ہے میراجی ،سردار جعفری ،فیض ،مصطفی ،مختار صدیقی ،قیوم نظر ،احمد ندیم قاسمی ،مجید امجد وزیر آغا اور دیگر نے بے شمار شعرا نے آزاد نظمیں لکھی ہیں ۔ بعض شعرا کی آزاد نظموں میں ابہام اور معنوی پیچیدگی پائی جاتی ہے ،مگر ابہام کا رجحان ایک وقتی ابال تھا ۔دورحاضر میں بڑی خوبصورت آزاد نظمیں لکھی جارہی ہیں ۔نظم گو شاعروں کے چند مزید نام یہ ہیں عزیز حامد مدنی ،ظہور نظر ،وحید اختر ،غلام جیلانی ،اختر حسین جعفری حفیظ صدیقی وغیرہ آزاد نظم کی مثا...

معری نظم کیا ہوتا ہے ؟

 معری نظم  قدیم شعرا کے ہاں قافیہ کی شرط شعر کے لیے ضروری تھی ،لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قافیہ کی پابندی کے سبب شاعر اپنے تخیل کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہو سکتا ۔حالی کو بھی حالی کو بھی اندازہ تھا کہ " قافیے کی قیدادائے مطلب میں خلل انداز" ہوتی ہے ۔چنانچہ اس احساس کے تحت بیسویں صدی میں ہمارے شعرا کے اندر قافیے سے چھٹکارا پانے کا رجحان پیدا ہونے لگا ۔انگریزی ادب کی ترویج ہوتی تو معری نظم ( بلا قافیہ )نظموں کے نمونوں نے اس رجحان کو تقویت بخشی ۔چنانچہ اردو میں بھی معری نظمیں لکھی جانے لگیں ۔ معری نظم میں بحر اور وزن کی پابندی کی جاتی ہے مگر قافیہ نہیں سمجھا جاتا ۔معری نظم کے ابتدائی تجربے عبد الحلیم شرر نے کیے بعد میں اسعیل میرٹھی ،ازادکاکوردی ،طباطبائی ،اور بہت سے دوسرے شعرا نے معری نظمیں لکھیں ایک مثال ملاحظہ ہے  نت نئی روشنی کے حیلے ہیں  جنگ بازی بھی اک تجارت ہے  سود خوروں نے،سٹہ بازوں نے  اوڑھ لی ہے قبائے پرویزی  جھانکتے ہیں " سنہرے ایندھن کو  ملک گیری بھی اک تجارت ہے  لاد کر آرتھر کے شانوں پر سیم و زر کے کھنکتے تھیلوں کو  ایشیا کو خرید ...

پابند نظم

 پابند نظم  پابند نظم کے لیے بحر ،وزن اور قافیہ و ردیف ( یا صرف قافیہ)کی پابندی ضروری ہے ۔موضوع کی کوئی قید نہیں ۔پابند نظم کسی بھی موضوع پر کسی بھی ہییت ( یعنی مثنوی،قصیدہ ،مسدس،مربع یا ترکیب بند وغیرہ )میں لکھی جاسکتی ہے ۔عموما کسی ایک خیال یا تصور کو موضوع نظم بنایا جاتاہے،یعنی نظم کے لیے صرف تسلسل خیال ضروری ہے ۔بیشتر قصائد ،مرثیے ،اور قطعات کو پابند نظمیں بھی کہا جاسکتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ مزاجاً وہ نظم جدید میں شمار نہیں ہوتیں ۔ نظیر اکبر ابادی ،شبلی اسماعیل ،اکبر ،بے نظیر شاہ،اقبال اور جوش نے دنیا کی بے ثباتی ،وطن کی محبت ،سیاست ،اور قدرتی مناظر کو موضوع نظم بنایا ۔جوش کے ہاں خارجی رجحانات  نمایاں ہیں ۔جدید شعرا کے ایک گروہ ( جاں نثار اختر،علی سردار جعفری ،ساحر اور مجاز وغیرہ )نے مجلسی یا معاشی غیر ناہمواریوں کو موضوع نظم بنایا ہے مگر ان کی اکثر نظمیں سیاسی پروپیگنڈے کی ذیل میں آتی ہیں ۔جعفر طاہر ،نعیم صدیقی ،عبد العزیز خالد ،سہیل احمد زیدی ،وغیرہ نے تہذیبی ،فکری اور سیاسی مسائل پر نظمیں لکھی ہیں ایک ملاحظہ ہیں  بیگانہ احساس ہے کیا جبر مشیت  کسی درجہ ستم...

قطعہ کیا ہوتا ہے

 قطعہ ( ق،ط،ع،ہ)کے لغوی معنی " ٹکرا"یا " جزو" کے ہیں ۔اصطلاح میں اس نظم کو کہتے ہیں ،جس میں کوئی خیال یا واقعہ مسلسل بیان کیاگیا ہو۔قطعے میں مطلع کی موجودگی ضروری نہیں ۔قطعے میں ہر شعر کے دوسرے مصرع میں قافیہ کی پابندی لازمی ہے گویا قطعے کی ہییت قصیدے کی ہوتی ہے۔مگر قطعے میں مطلع نہیں ہوتا ۔قطعہ ہر بحر میں کہا جاسکتا ہے ۔قطعہ کم از کم دو شعروں کا ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ کی کوئی قید نہیں ۔ قطعہ کے لیے کوئی موضوع مقرر نہیں ۔قطعہ نگار ہر طرح کے واقعات وبیانات ،نظریات وخیالات اور احساسات وجذبات کو نظم کرسکتا ہے ،بشرطیکہ پورا قطعہ معنوی اعتبار سے مکمل اکائی ہو ۔ اکثر نامور شعرا مثلاً سودا،میر،سوز،میر حسن , مصحفی ،انشا،رنگین ،اور جرات نے قطعات کہے ہیں ۔نظیر کو مسلسل گوئی سے خاص لگاؤ تھا اس لیے انھوں نے بھی اچھے قطعات لکھے حالی نے پہلی بار قطعہ پر خاطر خواہ توجہ دی ۔اس کے بعد شبلی ،ازاد ،اکبر اسماعیل میرٹھی ،اقبال ،احمد ندیم قاسمی ،انور مسعود اور بہت سے دوسرے شعرا نے سیاسی ،طنزیہ ،اور مزاحیہ ،کہے ہیں  چند قطعات نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں  انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے  ...

رباعی کیا ہوتا ہے

 رباعی  رباعی عربی لفظ ' ربع" سے بنا ہے۔رباعی میں " ی" نسبتی ہے گویا رباعی کے لغوی معنی ہیں" چار والے " ۔اصطلاح میں اس صنف نظم کو کہتے ہیں ' جو چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے رباعی کو ترانہ یا دوبیتی بھی کہتے ہیں ۔ رباعی بحر ہنرج مثمن ( اخرب یا اخرام ) میں لکھی جاتی ہے اور اس کے چوبیس اوزان مقرر ہیں ۔رباعی کے پہلے ،دوسرے اور چوتھے مصرع میں قافیہ لانا ضروری ہے ۔تیسرے مصرع میں قافیہ لایا جاسکتا ہے ۔ رباعی کے لیے موضوع کی کوئی قید نہیں ،حمد،نعت،منقبت،دنیا کی بے ثباتی ،تصوف ،فلسفہ،عشق،سیاست ،اخلاقیات ،مناجات ،منظرنگاری ،غرض دنیا کے ہر موضوع پر رباعی کہی جاسکتی ہے۔باعتبار موضوع اس کا دامن بے حد وسیع ہے ۔ رباعی مفررہ اوزان کے مطابق ہونی چاہیئے ۔ورنہ وہ رباعی نہیں قطعہ شمار ہوگی ،رباعی کے دو مصرعوں بالخصوص چوتھے مصرع پر رباعی کی عمدگی اور تاثیر کا انحصار ہوتا ہے،اس لیے آخری مصرع زوردار ہونا چاہیے ۔چونکہ رباعی میں ایک وسیع مضمون کو سمیٹ کر بیان کیا جاتا ہے ،اس لیے ایجاز و اختصار اس کی بنیادی خصوصیت ہے ۔رباعی اپنی نوعیت وخصوصیات کی بنا پر ایک مشکل...

تنقيد کیاہے

 تنقید کیا ھے بنیادی مباحث تنقید کے ادب میں وہ معنی نھیں جو زبان کے روزمرہ میں لیے جاتے ھیں یعنی عیب جوئی نکتہ چینی وغیرہ بلکہ ادبی اصطلاح ( Term) کے طور پر تنقید کے معنی کسی ادبی فن پارے( افسانہ ،ناول ،نظم، غزل وغیرہ)  کا فنی اور فکری سظح پر گہرائی سے مطالعہ ھے۔کسی بھی صنف ادب کی اپنی شعریات( poetics)  ھوتی ھیں ان معیارات کو نگاہ میں رکھتے ھوئے فن کی فنی اور فکری تفھیم اور درجہ بندی تنقید کہلاتی ھے۔ کسی فن پارے کی تنقید کے دو بنیادی پہلو ھوتے ھین 1. فنی پہلو 2. فکری پہلو اس لیے نقاد کسی بھی فن پارے کا جب ان دو جہتوں سے غائر مطالعہ کرلے اس کا تجزیہ پیش کرتا ھے تو اسے تنقید نگاری کہا جاتا ھے فنی جائزے مین اس صنف کی بوطیقا ( poetics)    اور رطوریقا( Rhetorics)   کے مختلف اجزا مثلا  وزن و عروض، زبان و بیانن، اسلوب، صنائع بدائع( شعری صنعتون اور اختراعات)  کا اس فن پارے مین جو استعمال  ھوا ھے ان کو بیان کرنا ۔اس کی عروضی خامیاں خوبیان ؤغیرہ واضح کرنا جب کہ فکری جائزے میں اس فن پارے میں جو فلسفہ کائنات( world outlook)  شاعر نے واضح طور پر...

مثنوی کیا ہوتا ہے ؟

 مثنوی  مثنوی عربی لفظ ہے ۔اس سے مراد ہے وہ مسلسل نظم جس کے ہر شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور تمام اشعار ایک ہی بحر میں ہوں۔مثنوی میں ہر طرح کے خیالات ،واقعات اور مطالب ادا ہوتے ہیں ۔اس لحاظ سے یہ بڑی مفید اور وسیع صنف شعر ہے ۔خصوصا واقعہ نگاری کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے۔اخلاقی ،مذہبی اور تاریخی موضوعات پر مثنویاں لکھی گئی ہیں۔مثنویوں میں قدرتی مناظر ،معاشرتی رسوم ورواج ،انسانی جذبات واحساسات وغیرہ کی خوبصورت مثالیں ملتی ہیں ۔ مثنوی میں قصیدے یا غزل کی طرح شروع سے لے کر آخر تک قافیے یا ردیف کی پابندی نہیں ہوتی ۔ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔مثنوی کے اشعار کی تعداد بھی مقرر نہیں ہوتی ۔فارسی میں سینکڑوں اور ہزاروں اشعار کی مثنویاں ملتی ہیں ۔مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں لکھی جاتی ہے۔ نظامی گنجوی نے پانچ مثنویاں پانچ مختلف اوزان کہی ہیں ۔امیر خسرو نے تین اوزان کا اضافہ کیا ۔پرانی مثنویوں میں ان مقررہ اوزان کی پابندی کی گئی ہے مگر مروجہ اور مقررہ اوزان کے علاوہ دوسرے وزن بھی مثنوی لکھنا جائز ہے ۔مثنوی میں مضامین کی ایک خاص ترتیب ہوتی ہے ۔پہلے حمدونعت ومنقبت پھر با...

پیروڈی

 پیروڈی  پیروڈی کا لفظ " پیروڈیا" سے بنا ہے جس کے لغوی معنی ہیں " جوابی نغمہ " ۔۔۔۔۔اصطلاح میں وہ صنف ظرافت ہے جو کسی کے طرز نگارش کی طرز اور نقل میں لکھی گئی ہو مگر اصل نگارش کے الفاظ و خیالات کو اس طرح بدل دیا جائے کہ مزاحیہ تاثرات پیدا ہو جائیں ۔پیروڈی میں کسی کی نگارش کی تقلید کرکے اس کے اسٹائل یا خیالات کا مذاق اڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پیروڈی نظم کے ساتھ مخصوص نہیں ۔اردو میں نثری پیروڈیاں بھی ملتی ہیں مگر کم۔۔۔۔پیروڈی کا اردو ترجمہ " تحریف " کیا گیا ہے،اسے مضحکہ خیز یا لفظی نقالی بھی کہ سکتے ہیں ۔ اردو پیروڈی ایک جدید صنف ہے۔اس کا آغاز اگرچہ انگریزی ادب کی ہندوستان میں ترویج سے وابستہ ہے،مگر قدیم اردو شاعری میں پیروڈی کی خود شکل کا سراغ ملتا ہے ۔انشا اور مصحفی نے آپس کی محاصرہ چشمکوں میں جو اشعار کہے ان میں پیروڈی کا عکس نظر آتا ہے ۔ابتدائی دور میں تربھون ناتھ، ہجر ،سرشار، اکرابادی ،اور دور جدید میں کنھیالال کپور،داہی ،پروفیسر عاشق محمد سید جعفری نزیر احمد وغیرہ کامیاب پیروڈیاں کہی ہیں ۔ چند مثالیں ۔ملاحظہ ہوں  اصل شعر  کسی نے گر کہا مرتا ہے مومن  کہ...

مرثیہ کیا ہوتا ہے ؟

 مرثیہ  مرثیہ عربی لفظ "رثا "سے بناہے ۔جس کے معنی ہیں مرنیوالے کی تعریف وتوصیف ۔گویا مرثیہ ایسی صنف شعر ہے جس میں کسی مرنے والے کا ذکر اور اس کی تعریف حسرت اور غم کے انداز میں کی جاتی ہے۔ ظاہری ہییت کے اعتبار سے ابتدا میں مرثیے کی کوئی خاص شکل متعین نہ تھی ۔شعرا کبھی غزل کی طرح متفرق اشعار میں اظہار غم کرتے تھے اور کبھی مثلث،مربع ،مخمس، مسدس ،ترکیب بند میں۔یعنی ہر شکل میں مرثیے لکھے گئے ،مگر بعد میں مسدس رائج ہوگئی اور دوسری تمام ہیتیں متروک ہوگئیں ۔مسدس ہییت کے مرثیے بند کے پہلے چار مصرعوں میں کسی بات کی تفصیل بیان کرتے ہیں آخری دو مصرعوں میں اس تفصیل کی بنا پر کوئی نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں۔عموما آخری دو مصرعوں میں ایسی دلچسپ یا عجیب بات بیان کی جاتی ہے کہ قاری خود بخود اگلے بند کی طرح رجوع کرتا ہے ۔اردو کے تمام مرثیہ نگاروں نے مسدس ہییت میں مرثیے لکھے ہیں ۔ مرثیہ کسی طرح کا ہوتا ہے۔مثلا وہ مرثیہ جو کسی شخص قومی رہنما وغیرہ کی وفات پر اظہار غم کے طور پر لکھا جاتا ہے جیسے ہر سال یوم علامہ اقبال یا یوم خوشحال کے موقع پر دونوں رہنماؤں کے متعلق نظمیں کہی جاتی ہیں ۔ایسے مرثیوں کی حثی...

قصیدہ کیا ہوتا ہے ؟

 قصیدہ  لفظ قصیدہ عربی لفظ" قصد " سے بنا ہے ۔اس کے لغوی معنی قصد ( ارادہ)کرنے کے ہیں ۔گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرتا ہے ۔اس کے دوسرے معنی مغز کے ہیں یعنی قصیدے اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضا میں سر یا مغز کو حاصل ہوتی ہے ۔فارسی میں قصیدے کو " چامہ" بھی کہتے ہیں ۔  قصیدہ ہیت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے ۔بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے ۔پہلے شعر دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ وہم ردیف ہوتے ہیں ۔قصیدے میں ردیف نہیں ۔قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے بعض اوقات درمیان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں۔ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم ازکم پانچ ہے زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ۔اردو اور فارسی میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے بھی ملتے ہیں ۔   ہیت کے لحاظ سے قصیدے کی دو قسمیں ہیں ۔ایک تمہیدیہ : جس میں قصیدے کے چاروں اجزا ( تشبیب ،مدح،گریز،دعا)موجود ہوتے ہیں،دوسرا مدحیہ    جو تشبیب اور گریز کے بغیر براہ راست مدح سے شروع ہوتا ہے۔   قصیدہ ،ظاہ...
 غزل  غزل اردو کی مقبول ترین صنف شعر ہے ۔غزل کے لغوی معنی عورتوں کے متعلق گفتگو کرنا ہیں۔ہرن کے منہ سے بوقت خوف جودردناک چیخ نکلتی ہے،اسے بھی غزل کہتے ہیں۔اس نسبت سے غزل وہ صنف شعر ہے جس میں حسن وعشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہو اور اس میں درد وسوز بہت نمایاں ہو۔اصطلاحا غزل کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں ،جن کا مفہوم یہ ہے کہ غزل کے ہر شعر میں ایک مکمل مفہوم ادا ہوتا ہے ۔ہر شعر اپنا اپنا الگ مفہوم دیتا ہے ۔ پوری غزل ایک ہی بحر میں ہوتی ہے ۔غزل کا مطلع ہونا ضروری ہے ۔مطلع کے دونوں مصرعے ہم قافیہ وہم ردیف ہوتے ہیں ۔یعنی پوری غزل ہم قافیہ وہم ردیف ( یا صرف ہم قافیہ )ہوتی ہے ۔باقی اشعار کے صرف دوسرے مصرعوں میں قافیہ ہوتا ہے۔بعض غزلیں غیر مردف یعنی ( بغیر ردیف کے)بھی ہوتی ہیں۔غزل کے آخری شعر میں شاعر بالعموم اپنا تخلص استعمال کرتا ہے ۔بعض غزلوں کے درمیانی شعروں میں بھی تخلص لایا جاتا ہے،غرض ایسے امور میں غزل گو کو کسی قدر آزادی ہوتی ہے۔ پرانے زمانے میں ایک غزل کے اشعار کی تعداد بالعموم پانج سے سترہ تک ہوتی تھی لیکن طویل غزلوں کی مثالیں بھی ملتی ہیں ۔غزل گو ایک غزل کے بعد اسی بحر اور ردی...

نعت

 نعت وہ صنف نظم ہے جس میں رسول پاک ص کی ذات ،صفات ،اخلاق اور شخصی حالات وغیرہ کا بیان ہوتا ہے اور آپ کی ہمہ پہلو مدح کی جاتی ہے نعت درحقیقت ایک مسلمان کی آں حضور ص کی ذات اقدس سے والہانہ عقیدت ومحبت کے اظہار کی ایک شکل ہے ۔آپ ص کے ایک فرمان کے مطابق آپ ص کی ذات سے ایک مسلمان کی محبت ،دنیا کی تمام محبتوں اور تعلقات ،بشمول والدین  نعت شریف اہل وعیال حتی کہ اپنی جان تک سے محبت پر فائق ہونی چاہیے ۔اس اعتبار سےنعت کے سو رنگ اور سو مضمون ہیں، موضوع کے اعتبار سے اس کی وسعت اور رنگارنگی کی کوئی انتہا نہیں ہے ،دنیا کی کوئی بھی ایسی زبان ،جس میں مسلمانوں نے شاعری کی ہو،نعت سے خالی ہو ۔اردو شاعری میں حمد کی طرح ،نعت کی روایت بھی پختہ ہے ۔موضوع کی وسعت اور تنوع کے پیشِ نظر نعت کی کوئی مخصوص مقررہیت نہیں ۔نعت ٫اک رنگ کا مضمون ہو تو سو ڈھنگ سے باندھوں ،کے مصداق ہر ہیت میں لکھی گئی ہے۔شعرائے قدیم مثنوی کے آغاز میں حمد کے بعد نعت کہتے تھے ۔نعتیہ قصیدے بھی بکثرت لکھے گئے ،نعتیہ مسدس اور رباعی کا ذخیرہ بھی موجود ہے ۔بعض شعرا نے آزاد نظم کی ہیت میں نعتیں لکھی ہیں ۔ہیاں پر تبرک کے طور پر ساغر صدی...

حمد

 حمد  حمد کے معنی اللہ تعالیٰ کی تعریف کے ہیں۔اصطلاح میں حمد وہ نظم ہوتی ہے،جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور عظمت وقدرت کا بیان ہوتا ہے اور اس کی ہمہ پہلو تعریف کی جاتی ہے ،حمد کا موضوع اتنا ہی وسیع اور متنوع ہے جس قدر خدا اور اس کی کائنات ۔گویا اس کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ حمد کے لیے ایک بحر ،وزن یا ہیت متعین نہیں ۔حمد مختلف ہییتوں میں لکھی گئی ہے،بعض جدید شعرا نے آزاد نظم کی ہیت میں بھی حمدیں لکھی ہیں ۔ذات باری تعالیٰ کے لیے محبت وعشق کا جذبہ حمد کا محرک ہوتا ہے لہذا ضروری ہے کہ 1 حمدرسمی نہ ہو بلکہ شاعر ،ذات باری تعالیٰ کے عشق میں ڈوب کر لکھے ۔ 2 شاعر کا لہجہ انتہائی مودب اور منکسرا نہ ہو،اظہار کا طریقہ ایسا نہ ہو جس سے شان الہی میں گستاخی کا پہلو نکلتا ہو ۔ 3 حمد کی زبان پاکیزہ اور الفاظ شستہ اور بلیغ ہوں ۔ 4 شاعر خدا کی عظمت اور رحمت بیان کرنے کے بعد اس سے مغفرت اور امت کی بھلائی کی درخواست کرے ۔ حمد اردو شاعری کی قدیم ترین صنف ہے، اتنی ہی پرانی جتنی خود اردو شاعری۔قدیم شعرا کے ہاں ہر دیوان ،مثنوی ،اور مجموعہ کلام کا آغاز حمد سے ہوتا تھا۔یہ روایت اس قدر پختہ اور گہری ...

مرزا اسد اللہ خان غالب کون تھا؟

 غالب کی مختصر تعارف  مرزا غالب کا نام اسداللہ خان تھا۔شروع میں اسد تخلص تھا مگر بعد میں غالب تخلص رکھا ۔بہادرشاہ ظفر نے آپ کو نجم الدولہ وبیرالملک اور نظام جنگ کے خطابات دئیے ۔ پیدائش 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے پانج برس کی عمر میں والد انتقال کرگئے چچا نصراللہ بیگ کے ہاں پرورش پائی آٹھ برس کی عمر میں چچا بھی فوت ہوگئے اور پھر ان کے نانا نے ان کی کفالت کی۔ تصنیفات پنج آہنگ ،عود ہندی ،اردو معلی ،دیوان اردو،کلیات فارسی ،مہرنمیر وز،مکتوبات غالب . اُردو ادب میں غالب کا مقام  غالب شاعر کی حیثیت سے اہم اور نمایاں مقام کے مالک ہیں اس کے علاوہ سادہ اور سنجیدہ نثرنگاری کی ابتدا کا سہرا بھی ان کے سر ہے ۔ان کا نثری سرمایہ وہ خطوط ہیں جو انہوں نے مختلف اوقات میں اپنے دوستوں کو لکھے ہیں۔اردو نثر میں غالب کے خطوط بہت بلند مقام کے حامل ہیں ۔ان کے خطوط نے اردو کو ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ ان سے پہلے اردو نثر میں مشکل اور پیچیدہ الفاظ اور محاورات کا عام استعمال تھا۔تصنع اور بناوٹ عام تھی ۔یہ غالب کا اردو نثر کا ایک کارنامہ ہے۔کہ انھوں نے مشکل اور پیچیدہ انداز بیان ترک کرکے سادگی اور روزمر...

لسانیات کے اہم اصول:

 لسانیات کے اہم اصول : لسانیات کی بنیاد زبان ہے ۔زبان کسی گروہ کی اپنی وضع کردہ صوتی علامات کا ایک ایسا نظام ہے ۔جس کی مدد سے وہ اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتا ہے ۔اس کے لے ضروری ہے کہ صوتی علامتیں بامعنی ہوں تاکہ دوسرا اسے آسانی سے سمجھ سکے ۔شروع میں اس مقصد کےلئے اشاروں یا تصاویر کا استعمال ہوا کرتا تھا لیکن اب تحریری شکل میں زبان وجود میں آگئی ہے ۔ زبان کا انسانی اعضا کی ساخت سے بھی گہرا تعلق ہے ۔اس تشکیل میں زبان ،تالو حلق ،منہ،ناک ،دانت، ہونٹ،اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔اگر کوئی آواز سانس کے ساتھ بغیر روکے نکلے تو حرف علت وجود میں آتے ہیں ۔جو آوازیں تالو ،حلق،زبان اور ہونٹ کے مختلف حصوں سے ٹکرانے کے بعد نکلتی ہیں ان سے حروفِ صحیح وجود میں آتے ہیں۔ انسانوں کی طرح زبانوں کے بھی خاندان ہیں ۔علمائے لسانیات نے ان زبانوں کو کئی شاخوں میں تقسیم کیاہے ۔امریکی مصنف بوئی گرے کی تحقیقات کے مطابق دنیا میں 2796 زبانیں مستعمل ہیں ۔جنہیں36 گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔بہت علماء دنیا کی زبانوں کو آٹھ بڑے خاندانوں میں تقسیم کرتے ہیں جن کے نام یہ ہیں ۔سامی ،ہند چینی ،درواڑی،منڈا،افریقہ کی بانت...

لسانیات کیا ہے

لسانیات کیا ہے ؟ لسانیات وہ علم ہے جس میں کسی زبان کا مطالعہ سائنسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے زبانوں کے قواعد کے پیچیدہ مسائل پر بحث کی جاتی ہے ۔کسی زبان کی گرامر کو سمجھنے کے لیے دراصل ایک مکمل علم موجود ہے ۔جس کو زبان کا علم یا زبان شناسی کہہ سکتے ہیں ۔انگریزی میں اس علم کو لنگوسٹکس (linguistics)کا نام دیا گیا ہے ۔اور اُردو میں اسے لسانیات کہتے ہیں ۔ گرامر کی اجزاء: جدید لسانیات کے اصولوں کے مطابق کسی زبان کی گرامر تین قسم کے اجزاء کے مجموعے کا نام ہے ۔یہ اجزاء حسب ذیل ہیں ۔ 1 صوتیات: ہر زبان میں بامعنی آوازوں کی ایک محدود تعداد ہوتی ہے جن کو حروف تہجی کہتے ہیں ۔حروف تہجی الفاظ کے معنوں میں فرق پیدا کرتے ہیں ان کو ملا کر الفاظ وجود میں آتے ہیں ۔جن اصولوں کے تحت الفاظ تشکیل پاتے ہیں انہیں صوتیاتی قواعد کہتے ہیں ہر زبان میں صوتیاتی قواعد موجود ہوتے ہیں صوتیاتی قواعد کہتے ہیں صوتیات لسانیات کا ایک اہم جزو ہیں ۔ 2 صرف نحو: علم صرف الفاظ کے اجزاء کے مطالعہ کا نام ہے سابقے لگاکر نئے الفاظ بنانا علم صرف کے قواعد ہیں۔الفاظ دو قسم کے ہوتے ہیں مفرد اور مرکب۔مفرد الفاظ کا تجزیہ ...

نعت شریف

Image
  نعت شریف  شاعر: ساحر صدیقی غم کے ماروں کا آسرا تم ہو ص  بے سہاروں کا آسرا تم ہو ص ہو بھروسہ تمہی فقیروں کا  تاجداروں کا آسرا تم ہو ص دردمندوں سے پیار ہے تم کو  غم گساروں کا آسرا تم ہو ص تم سے یہ کائنات روشن ہے  چاند تاروں کا آسرا تم ہو  ناز ہے جن پہ باغ جنت کا  ان بہاروں کا آسرا تم ہو ص  چشم ساغر کی آبرو تم سے  دل فگاروں کا آسرا تم ہو ص